نئی دہلی: صحافیوں کئی انجمنوں نے منگل کے روز آن لائن نیوز پورٹل دی وائر کے ایڈیٹرز کے خلاف پیر کو دہلی پولیس کی چھاپہ ماری پر تشویش کا اظہار کیا۔ دہلی پولیس نے یہ کارروائی بی جے پی کے ترجمان امیت مالویہ کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر کی بنیاد پر کی ہے, جس میں دھوکہ دہی، جعلسازی، ہتک عزت، مجرمانہ سازش کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔
مالویہ نے دی وائر کی ایک رپورٹ کے حوالے سے کچھ دن پہلے ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ دی وائر کی ٹیک کمپنی میٹا سے متعلق اس رپورٹ پر کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں اور ویب سائٹ کی جانب سے اس رپورٹ کے ہٹا دیا گیا ہے۔
Published: undefined
پریس کلب آف انڈیا، دہلی یونین آف جرنلسٹس، پریس ایسوسی ایشن، ورکنگ نیوز کیمرہ مین ایسوسی ایشن، انڈین جرنلسٹس یونین، ڈیجی پب نیوز انڈیا فاؤنڈیشن اور کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس نے مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر میں نامزد افراد کے ڈیجیٹل آلات ضبط کر لیے گئے ہیں اور اس کارروائی میں مناسب عمل کی پیروی بھی نہیں کی گئی۔
Published: undefined
تنظیموں نے کہا کہ ایف آئی آر کا تعلق دی وائر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے ہے، جسے 'سوشل میڈیا ثالث کے ذریعے ہٹا دیا گیا تھا۔ بیان میں کہا گیا، ’’یہ شکایات دی وائر کی جانب سے اپنی رپورٹس واپس لینے اور اپنے قارئین کے لئے معافی نامہ جاری کرنے کے بعد درج کی گئیں۔ اس میں وعدہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ تکنیکی شواہد پر مشتمل ادارتی طریقہ کار پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔"
Published: undefined
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’یہ حیرت کی بات ہے کہ نیوز پورٹل کی جانب سے ادارتی غلطیوں کے لیے ایک تفصیلی تردید بیان جاری کرنے اور اسے پبلک ڈومین میں ڈالنے کے بعد بھی دہلی پولیس نے بی جے پی لیڈر کی شکایت کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کر لی اور غیر معمولی تیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحقیقات کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔‘‘
Published: undefined
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے ’’پریس کلب آف انڈیا کا خیال ہے کہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ رپورٹنگ کرے اور اسے ہر وقت رپورٹنگ کے لیے ذمہ دار ہونا چاہیے۔‘‘ خیال رہے کہ ایک روز قبل چھاپے کے دوران پولیس نے سدھارتھ وردراجن اور ایم کے وینو کے گھروں سے فون اور لیپ ٹاپ جیسے آلات بند کر دئے گئے تھے۔ پولیس نے کہا ہے کہ وہ ان آلات کو چیک کریں گے اور شواہد اکٹھے کریں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز