قومی خبریں

رافیل معاہدہ: فضائیہ سربراہ کی رائے سے کوئی عدم اتفاق نہیں، اصل سوال ہے بدعنوانی

رافیل جنگی طیارہ کی کوالیٹی اور صلاحیت پر کسی کو کبھی کوئی شبہ نہیں رہا، کانگریس نے ہمیشہ مودی حکومت کے ذریعہ رافیل معاہدہ میں ہوئی بدعنوانی سے پردہ ہٹانے کی کوشش کی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

رافیل طیارہ پر پسندیدہ کاروباریوں کو فائدہ پہنچانے کے الزامات میں گھری مرکزی حکومت نے اپنے دفاع میں اب فوجی افسروں کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ بدھ کو فضائیہ سربراہ نے جس طرح سامنے آ کر رافیل طیارہ کی پیروکاری کی، اس سے ایک ہی پیغام نکل کر سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ حکومت رافیل پر گھری ہوئی ہے اور اسے اب دفاع کے ایسے طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

دراصل رافیل معاہدہ میں مبینہ بدعنوانی کے الزام لگا کر اپوزیشن مرکزی حکومت پر حملہ آور ہے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی نے اس معاملے میں وزیر اعظم اور وزیر دفاع پر ملک کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے، جب کہ سینئر وکیل پرشانت بھوشن اور سابق مرکزی وزیر ارون شوری نے اس معاملے میں براہ راست وزیر اعظم کا نام لیا ہے۔

انہی الزامات کے درمیان ہندوستانی فضائیہ نے اپنی بات لوگوں کے سامنے رکھی۔ بدھ کے روز فضائیہ سربراہ ائیر چیف مارشل بی ایس دھنووا نے کہا کہ مرکزی حکومت ہمیں رافیل جنگی طیارہ مہیا کروا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان طیاروں کے ذریعہ ہم مشکلات کا سامنا کر پائیں گے۔

دہلی میں ایک تقریب کے دوران فضائیہ سربراہ نے مزید کہا کہ ’’آج دنیا میں بہت کم ایسے ملک ہیں جو ہماری طرح کی دقتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمارے دونوں طرف نیوکلیائی طاقت والے ملک ہیں۔ آج ہمارے پاس کل 31 دستے ہیں جبکہ 42 دستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر 42 دستے بھی ہوتے ہیں تو بھی دونوں طرف کی جنگ لڑنا آسان نہیں ہوگا۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کہ ’’آج ہمارے پاس کئی طرح کے اسلحوں کی کمی ہے۔ ان مشکلات کو دیکھا جائے تو ہم اپنے پڑوسیوں کے آگے مشکل سے ہی کھڑے ہو پائیں گے۔‘‘

فضائیہ سربراہ کے اس بیان سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ ملک کی فضائیہ کی طاقت بڑھنی چاہیے۔ نہ تو اپوزیشن اور نہ ہی کسی فوجی ماہر نے فضائیہ کے لیے جنگی طیارہ کی ضرورت پر سوال اٹھایا ہے۔

Published: undefined

اتنا ہی نہیں، گزشتہ حکومت تو 126 رافیل طیارہ خریدنا چاہتی تھی تاکہ مستقبل کے چیلنجز سے مقابلے کے لیے فضائیہ اہل ہو سکے۔ رافیل طیارہ معاہدے سے متعلق تنازعہ تو بدعنوانی کا ہے۔ گزشتہ یو پی اے حکومت نے فرانس کے ساتھ 126 جنگی طیارہ کا معاہدہ کرنے کی شروعات کی تھی اور اس میں ہندوستان کی ضرورتوں کے مطابق تبدیلی کرنے کو کہا تھا۔ اتنا ہی نہیں، ان طیاروں میں ضروری تبدیلی اور نئے انفراسٹرکچر کے لیے سرکاری کمپنی ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل) کو شراکت دار بنایا جانا تھا۔

Published: undefined

لیکن موجودہ حکومت نے اس معاہدے میں نہ صرف رافیل طیارہ کی تعداد کم کر دی بلکہ مبینہ طور پر ان کی قیمت بھی تقریباً 3 گنا بڑھا دی۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومت پر جو الزامات لگ رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ اس معاہدے سے سرکاری کمپنی ایچ اے ایل کو باہر کر اس کی جگہ پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس کو شامل کرنا۔ کانگریس سمیت پورا اپوزیشن رافیل طیارہ معاہدہ کے اسی بات کی مخالفت کر رہا ہے، نہ کہ رافیل طیارہ کی صلاحیت یا ضرورت کی۔

پرانی کہاوت ہے کہ چور کی داڑھی میں تنکا، اسی کو حقیقت کے پردے پر اتارتے ہوئے جب مرکزی حکومت کے پاس اپنے دفاع میں کوئی دلیل نہیں بچی تو فضائیہ کے افسروں کے بہانے صفائی دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

فضائیہ سربراہ سے پہلے نائب سربراہ ائیر مارشل ایس بی دیو بھی رافیل طیارہ معاہدہ پر اپنی رائے رکھ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ رافیل معاہدے کی تنقید کرنے والے لوگوں کو مقررہ ضابطہ اخلاق اور خرید کے عمل کو سمجھنا چاہیے۔ رافیل ایک بہترین اور اہل طیارہ ہے۔ فضائیہ اسے اڑانے کا انتظار کر رہی ہے۔

یہاں بھی سوال وہی ہے کہ رافیل جنگی طیارہ کی اہلیت، اس کی صلاحیت وغیرہ پر تو کوئی انگلی اٹھی ہی نہیں ہے۔ سارا معاملہ تو طیارہ کی قیمت اور اس معاہدے میں سرکاری کمپنی کو باہر کر انل امبانی گروپ کے ریلائنس ڈیفنس کو شامل کرنے کا ہے۔

کانگریس الزام لگاتی رہی ہے کہ یو پی اے حکومت نے جس طیارہ کا معاہدہ کیا تھا اسی طیارہ کو موجودہ مرکزی حکومت تین گنا قیمت میں خرید رہی ہے۔ کانگریس کا الزام ہے کہ اس نئے معاہدے میں کسی بھی طرح کی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی بات نہیں ہوئی ہے۔

سابق وزیر دفاع اے کے انٹونی کا بیان ہے کہ یو پی اے حکومت جو معاہدہ کر رہی تھی اس کے مطابق کل معاہدہ 126 طیاروں کا تھا جن میں سے 18 طیارہ ہی فرانس میں بننے تھے، بقیہ سبھی ایچ اے ایل کے ذریعہ ہندوستان میں بنائے جانے تھے۔ لیکن موجودہ حکومت نے نہ صرف طیارہ کی تعداد کم کی ہے بلکہ ناتجربہ کار پرائیویٹ کمپنیوں کو بھی اس میں شامل کر دیا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined