قومی خبریں

رافیل معاہدہ: بغیر عدالتی فیصلہ پڑھے ہی اچھلنے لگی ہے مودی حکومت

کانگریس کا کہنا ہے کہ ’’میڈیا اور بی جے پی رافیل معاملہ پر غلط خبریں پھیلانے سے پہلے اگر عدالت کا فیصلہ پڑھ لیں تو سب صاف ہو جائے گا۔ یہ کوئی مجرمانہ معاملہ نہیں تھا جس میں کسی کو کلین چٹ ملتی ہے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

سپریم کورٹ نےر افیل معاملے میں داخل سبھی عرضیوں کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ اس معاہدے کی جانچ کرنا اس کے اختیار سے باہر ہے۔ عدالت کے اس فیصلے پر دو طرح کے رد عمل سامنے آ رہے ہیں۔ حکومت اور بی جے پی خوشیاں منا رہی ہے تو اپوزیشن نے اسے محدود فیصلہ بتاتے ہوئے رافیل معاہدہ کو پاک صاف ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کا رد عمل تو امید کے مطابق ہی ہے، لیکن حیرانی میڈیا کی خوشی سے ہے۔ تجربہ کار صحافی سے لے کر نووارد ٹی وی جرنلسٹ تک کے چہرے ٹی وی اسکرین پر خوشی سے جھومتے نظر آ رہے ہیں۔

چلیے سب سے پہلے بتاتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے عرضیوں کو خارج کرتے ہوئے کیا کہا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ رافیل طیارہ ھاصل کرنے کے عمل سے وہ مطمئن ہے کہ اس میں قانون پر عمل ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی صدارت والی جس بنچ نے یہ فیصلہ سنایا ہے اس میں جسٹس گوگوئی کے علاوہ جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس کے ایم جوسف بھی ہیں۔ فیصلہ دیتے وقت بنچ نے زبانی طور پر کہا کہ ’’سپریم کورٹ 126 کی جگہ 36 طیارے کی خریداری کے فیصلے کو طویل مدت تک ٹال نہیں سکتا۔ یہ سچ ہے کہ پہلے 126 طیارے کو خریدنے کی بات کی جا رہی تھی جسے بدل کر 36 طیاروں کی خرید کا معاہدہ کیا گیا، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘

رافیل طیاروں کی قیمت پر سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ عدالت کا کام نہیں ہے کہ وہ کسی طیارہ کی قیمت یا مالی معاملات کی جانچ کرے۔ ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی کہہ دیا کہ انل امبانی کو اس معاہدے میں آفسیٹ پارٹنر بنانا مرکز کا یا طیارہ بنانے والی کمپنی کا حق ہے، ہم اس میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔

Published: undefined

تو کیا سپریم کورٹ کے اس فیصلے اور زبانی تبصروں کو مودی حکومت کے لیے رافیل معاملے میں کلین چٹ مانا جا سکتا ہے! سینئر وکیل اور رافیل معاملے میں عرضی داخل کرنے والوں میں سے ایک پرشانت بھوشن نے اس فیصلے کو پوری طرح غلط قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ ایک محدود کلین چٹ ہے۔ عدالت نے ان کافی معاملوں کا تجزیہ کیا جو ہم نے اٹھائے تھے۔ اس معاملے میں از سر نو غور کی عرضی کی ضرورت ہے یا نہیں، اس سلسلے میں فیصلہ بعد میں لیا جائے گا۔‘‘

Published: undefined

دوسری طرف کانگریس نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھکتوں کا خوش ہونا بے معنی ہے کیونکہ عدالت نے صاف کہا ہے کہ رافیل معاہدہ کی جانچ کرنا اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ کانگریس نے اس کے ساتھ ہی رافیل معاہدہ کی مشترکہ کمیٹی سے جانچ کرانے کا مطالبہ دہرایا ہے۔

Published: undefined

لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی پوری مودی حکومت اور بی جے پی جشن منا رہی ہے۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ بی جے پی اور مودی حکومت کے وزیر اسی سپریم کورٹ کے فیصلے پر تالیاں پیٹ رہے ہیں، جسے وہ سبریمالہ مندر ایشو پر پانی پی پی کر گالیاں دیتے رہے ہیں۔ کانگریس نے بی جے پی وزراء اور بھکتوں کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کی کاپی بھی دستیاب کرائی ہے۔ کانگریس نے کہا ہے کہ میڈیا اور بی جے پی رافیل معاہدہ پر فیصلہ سے متعلق غلط خبریں پھیلانے سے پہلے اگر عدالت کا فیصلہ پڑھ لیں تو تصویر صاف ہو جائے گی۔ کانگریس نے کہا ہے کہ یہ کوئی مجرمانہ معاملہ نہیں تھا جس میں کسی کو کلین چٹ ملتی ہے۔

Published: undefined

کانگریس ترجمان رندیپ سرجے والا نے بھی کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ نے کانگریس کے 15 نومبر کو دیے گئے اس بیان پر مہر لگائی جس میں کہا گیا ہے کہ رافیل گھوٹالہ میں طیارہ کی قیمت، خریداری کے عمل میں بے ضابطگی اور شرائط سے چھیڑ چھاڑ کی جانچ عدالت کے دائرے میں نہیں آتی۔ انھوں نے کہا کہ کانگریس پہلے دن سے اس معاملے میں مشترکہ جانچ کمیٹی یعنی جے پی سی سے جانچ کا مطالبہ کر رہی ہے۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ آخر مودی حکومت جانچ سے کیوں بھاگ رہی ہے؟

Published: undefined

سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد بی جے پی میں سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ نیوز ایجنسی کے مطابق وزیر دفاع نرملا سیتارمن نے اس سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ سمجھا جاتا ہے کہ سیتا رمن رافیل معاملہ میں وزیر اعظم کو عدالت کے فیصلے کی تفصیلی جانکاری دے کر آگے کی پالیسی پر تبادلہ خیال کریں گی۔ لیکن رافیل طیارہ خریداری جیسے تکنیکی معاملوں پر عدالت کے فیصلے پر کئی طرح کے سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ دفاعی معاملوں پر گہرائی سے تجزیہ کرنے والے صحافی اجے شکلا نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو خامی سے بھرا ہوا بتایا ہے۔

Published: undefined

تو کیا رافیل معاہدہ میں مبینہ بدعنوانی کو صرف سیاسی معاملہ مانا جائے گا؟ کیا اس معاہدے میں کچھ بھی غلط نہیں ہوا؟ کیا 126 کی جگہ صرف 36 طیارہ خریدنا ملک کے مفاد میں کیا گیا فیصلہ ہے؟ کیا طیاروں کی قیمت کو کئی گنا بڑھا دینا جائز مانا جائے گا؟ یہ وہ سوال ہیں جو میڈیا اور صحافیوں کو پوچھنا چاہیے۔ پوچھے بھی جا رہے ہیں، لیکن جس طرح سے صحافی برادری کا رد عمل آ رہا ہے، اندیشہ ہے کہ کئی اہم ایشوز کی طرح اس پر بھی سوال پوچھے جائیں گے۔ صحافی کے ذریعہ نیچے دیا گیا رد عمل اس کا ثبوت ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined