بہار میں ڈبل انجن حکومت کے سربراہ نتیش کمار نے غضب کا ایک ماڈل لوگوں کے سامنے رکھا ہے۔ دو، چار، دس، بیس نہیں بلکہ ایک ساتھ چار لاکھ منصوبوں پر کام شروع کرنے کا دعویٰ ہے اور روزانہ 8.39 لاکھ مزدوروں کو کام ملنے کی بات کہی گئی ہے۔ اگر یہ بات کسی بھی طرح ہضم ہو جائے تو بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب کر سکتے تھے تو انھوں نے کورونا اور دوسری ریاستوں سے بہاریوں کے گِھسٹ گِھسٹ کر مرتے جیتے آنے کا انتظار کیوں کیا؟
Published: undefined
حکومت کا حقیقی حال سمجھنے کے لیے ایک ہی مثال کافی ہے۔ ایک طرف بہار کے وزیر برائے محنت شیام رجک مرکزی حکومت سے وضاحت طلب کر رہے ہیں کہ 20 لاکھ کروڑ کے کورونا راحت پیکیج میں بہار کو ایم ایس ایم ای کے لیے کتنا ملے گا۔ دوسری طرف انہیں کے محکمہ نے ایک جھٹکے میں 6 لاکھ سے زیادہ ہنرمند مزدوروں کی تفصیل تیار کر لی ہے۔ دیہی ترقیاتی محکمہ نے کیمپ لگا کر 43 ہزار سے زیادہ مزدوروں کا ملازمت کارڈ بنا لیا اور 16 اپریل سے 24 مئی تک ہی بہار حکومت کے 11 محکموں نے چار لاکھ منصوبوں کے ذریعہ 3.19 کروڑ انسانی مزدوری کے دن پیدا کر دیئے۔ مطلب اتنے دنوں میں کل 8.39 لاکھ ہاتھوں کو کام دینے میں حکومت کامیاب رہی۔
Published: undefined
ادیب پرشانت وپلوی کہتے ہیں کہ "بہار حکومت کے پاس اتنا کام تھا کہ وہ 38 دنوں میں اتنے لوگوں کو روزگار دے سکتی تھی تو اس سے یہ سوال پوچھنا ہر بہاری کا حق ہے کہ پھر ہجرت کی نوبت ہی کیوں آئی؟ بہار کے مزدوروں کو لوٹتے وقت کئی دنوں تک پیدل چلنا پڑا۔ بہت سارے راستے میں مر گئے۔ بہت سارے بھوکے پیاسے یہاں پہنچتے پہنچتے دم توڑ گئے۔ اگر روزگار کے اتنے امکانات تھے، چار-چار لاکھ منصوبے تھے اور 38 دنوں میں 8.39 لاکھ لوگوں کو کام دینے کی حکومت میں قوت تھی تو پہلے ہی بلا لاتے یا پھر گاڑی بھیج کر واپس منگا لیتے اپنے مزدور بھائیوں کو۔"
Published: undefined
روزگار کی بات ابھی کس حد تک زبانی ہے، یہ محکمہ لیبر کے پورٹل پر نظر آ جاتا ہے۔ حکومت نے یہاں مزدوروں کو آن لائن رجسٹریشن کرانے کے لیے کہا ہے، لیکن لوگ کرائیں بھی تو کیسے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ ریاست میں بلاک ہیڈکوارٹرس میں ہی سائبر کیفے ہیں اور وہ بھی ان دنوں بند ہیں۔ اینڈرائیڈ موبائل آج بھی زیادہ تر مزدوروں کے پاس نہیں ہیں اور جن کے پاس ہیں وہ ویڈیو دیکھنے سے زیادہ اس کا کوئی استعمال کرنا نہیں جانتے۔
Published: undefined
پٹنہ سول کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ وششٹھ کمار امبشٹھ کہتے ہیں کہ "پہلے تو لاک ڈاؤن میں مزدوروں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا اور اب آن لائن فارم بھرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ بہت سارے لوگوں کے بہار لوٹنے کی جانکاری ہے، لیکن ہر دن ہر ایک کو کام مل رہا ہے، ایسی جانکاری بھی نہیں سامنے آ رہی۔ یہ چھپانے کی بات بھی نہیں۔"
Published: undefined
نئے روزگار پیدا کرنے کی بات کرنے والی نتیش حکومت کو یہ تک دھیان نہیں ہے کہ راجدھانی پٹنہ سے کچھ ہی دور پر پیتل کے برتنوں کے کاریگر بھوکے مر رہے ہیں۔ نتیش خود اس کی وسیع مارکیٹنگ کے لیے اعلانات کر بھول چکے ہیں۔ ویسے نتیش ان دنوں زراعت کے لیے بھی جاگے ہیں۔ مرکزی وزیر مالیات نے بہار میں مکھانا کلسٹر کو لے کر اعلان کیا تو نتیش کو اس کے ساتھ لیچی، مشروم وغیرہ کی بھی یاد آ گئی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ سال تک لیچی کو یہی حکومت باقاعدہ کاغذوں پر چمکی بخار پھیلانے کا ملزم بنائے بیٹھی تھی۔
Published: undefined
چار سال قبل بڑے جوش کے ساتھ مشروم کی کھیتی شروع کرنے والے نوین چندر کہتے ہیں "قرض ملنے میں پریشانی اور حوصلہ شکنی کرنے والے حکومتی عمل کے باوجود کام شروع کیا، لیکن دو سال میں ہمت جواب دے گئی کیونکہ اعلانات سے الگ سرکاری عمل میں سب کچھ ناممکن جیسا لگا۔ کسان کو بازار دینے کی ذمہ داری حکومت اٹھاتی تو میرے جیسے نوجوان کا حوصلہ پست نہیں ہوتا اور اپنے قدم پیچھے نہیں کھینچتے۔"
Published: undefined
دراصل کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ بہار کی نتیش حکومت لاک ڈاؤن میں ہوئی فضیحت کے ڈیمیج کنٹرول کے لیے میڈیا مینجمنٹ کے ذریعہ کاغذی ناؤ چلا کر واہ واہی لینے کی کوشش میں ہیں۔ لیکن یہ اتنا بھی آسان نہیں ہے۔ معاملہ کچھ اور ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دھڑا دھڑ 4 لاکھ منصوبوں کا اعلان اور 8.39 لاکھ مزدوروں کو روزگار دینے کا دعویٰ اگر محض کاغذی ہوا تو ہزاروں کروڑ کا کھیل ہو سکتا ہے۔ اسی کا زیادہ اندیشہ بھی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined