اس خبر پر یقین نہیں آتا کہ موتی لال وورا جی انتقال فرما گئے۔ مشکل سے کوئی دس پندرہ روز قبل میرے پاس ان کا فون آیا اور مجھ سے بولے کہ اگر آپ کو فرصت ہو تو کل بارہ بجے آ جائیے۔ میں دوسرے روز معین وقت پر پہنچ گیا۔ وہ اپنے کمرے میں کرسی پر تشریف فرما تھے۔ ٹھنڈ بہت تھی۔ ان کے کمرے میں دو عدد ہیٹر جل رہے تھے۔ کمرہ گرم تھا۔ وہ کچھ ہی عرصہ قبل اسپتال سے واپس آئے تھے۔ مگر اس دن صحت بہت بہتر لگ رہی تھی۔ مجھ کو برابر کی کرسی پر بٹھایا۔ بولے بھائی احمد پٹیل گزر گئے اور ان کی موت نے مجھ کو بالکل تنہا کر دیا۔ پاس رکھی ہوئی کرسی کی طرف اشارہ کر کے بولے-’’ابھی اسپتال جانے سے قبل احمد بھائی آئے تھے اور اسی کرسی پر بیٹھے میری خیریت دریافت کرتے رہے۔‘‘ ان کو احمد بھائی کے گزر جانے کا بہت صدمہ تھا۔ گھڑی گھڑی یہی کہہ رہے تھے کہ احمد مجھ کو اکیلا چھوڑ گئے۔ لگتا ہے کہ احمد بھائی کا صدمہ ان سے برداشت نہیں ہوا اور وہ جلد ہی اپنے دوست کے پاس چلے گئے۔
Published: 21 Dec 2020, 6:10 PM IST
لیکن خدا جانے کانگریس پارٹی پر یہ کیا آفت آئی ہے کہ ایک مہینے کے اندر پارٹی کے تین ستون گر گئے۔ سب سے پہلے آسام کے سابق وزیر اعلیٰ ترون گگوئی کا انتقال ہوا، پھر کوئی دس دن کے اندر احمد پٹیل جاتے رہے اور آج یہ خبر آئی کہ موتی لال وورا بھی انتقال کر گئے۔ یقیناً یہ کانگریس کے لیے بڑا دھکا ہے۔ وورا جی یوں تو عمر رسیدہ تھے۔ ان کی عمر 90 برس سے تجاوز کر چکی تھی۔ لیکن وہ آج بھی کانگریس کے لیے ویسے ہی جوان تھے جیسے کبھی اپنی جوانی میں ہوا کرتے تھے۔ ان کی ہر سانس کانگریس کے لیے تھی۔
Published: 21 Dec 2020, 6:10 PM IST
وورا جی حکومت اور پارٹی دونوں میں انتہائی بلند قامت پر رہے۔ وہ غالباً واحد شخص تھے جنھوں نے ہندوستان کی دو سب سے بڑی ریاستوں پر حکومت کی۔ پہلے راجیو گاندھی نے انھیں مدھیہ پردیش کا وزیر اعلیٰ 1985 میں منتخب کیا۔ اس وقت مدھیہ پردیش رقبہ کے اعتبار سے ملک کی سب سے بڑی ریاست تھی۔ مدھیہ پردیش میں وورا جی چار برسوں تک وزیر اعلیٰ رہے۔ پھر سنہ 1990 کی دہائی میں نرسمہا راؤ نے ان کو اتر پردیش کا گورنر نامزد کیا۔ اتفاق سے کچھ عرصے بعد وہاں ’گورنر رول‘ قائم ہو گیا۔ اب اتر پردیش کی حکومت وورا جی کے ہاتھوں میں تھی۔ اتر پردیش سیاسی اعتبار سے ملک کی سب سے اہم ریاست ہے۔ وہاں بھی انھوں نے راج کیا۔ اور اس طرح وہ واحد شخص تھے جنھوں نے دو ریاستوں کی حکومت چلائی۔
Published: 21 Dec 2020, 6:10 PM IST
کانگریس پارٹی میں وورا جی کی جو عزت تھی اس سے سب بخوبی واقف ہیں۔ گاندھی خاندان کو ان پر بہت بھروسہ تھا۔ وہ پارٹی کے اہم عہدوں پر فائز رہے۔ سونیا گاندھی کے دور صدارت میں تقریباً دس برس تک وہ پارٹی کے خزانچی رہے۔ وورا جی کے لمبے سیاسی سفر کی سب سے اہم بات یہ رہی کہ انتہائی اہم عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود ان پر کبھی انگلی نہیں اٹھی۔ وہ انتہائی نیک، ملنسار اور ایماندار شخصیت تھے۔ ہر کسی کی مدد کو تیار رہتے تھے۔
Published: 21 Dec 2020, 6:10 PM IST
موتی لال وورا کی موت سے نیشنل ہیرالڈ، نوجیون اور قومی آواز گروپ کو گہرا دھکا لگا ہے۔ جواہر لال نہرو کے قائم کردہ ان اخباروں کی کمپنی ایسو سی ایٹیڈ جرنل لمیٹڈ کے وہ ایک لمبے عرصے تک چیئرمین رہے۔ دراصل سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے وہ صحافی ہی تھے۔ اور ہمارے چیئرمین کی حیثیت سے اکثر وہ اپنے صحافت کے دور کا ذکر کرتے تھے۔ ان کو اخباروں کی دنیا سے خاص لگاؤ تھا۔ ان کی سرپرستی میں اے جے ایل گروپ (ایسو سی ایٹڈ جرنل لمیٹڈ) نے ایک نیا سفر ’نیوز پورٹل‘ کی دنیا میں قدم رکھنے کے ساتھ شروع کیا۔ یہ ان کی ہی ہمت تھی کہ انگریزی، ہندی اور اردو میں تین ویب سائٹ شروع ہوئیں، اور ’نیشنل ہیرالڈ سنڈے‘ (انگریزی) و ’نوجیون سنڈے‘ (ہندی) ہفتہ وار اخباروں کی شروعات ہوئی جو اب پوری آب و تاب کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔
Published: 21 Dec 2020, 6:10 PM IST
اپنی آخری ملاقات میں وورا جی مجھ سے بہت دیر تک جلد ہی ’قومی آواز‘ ہفتہ وار اخبار نکالنے کے پلان کے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ افسوس کہ یہ کام شروع ہونے سے قبل ہی وہ جاتے رہے۔ ان کی موت صرف کانگریس پارٹی ہی نہیں بلکہ اے جے ایل گروپ اور ’قومی آواز‘ کے لیے ایک بڑا دھکّا ہے۔ ہم سب وورا جی کو بھلائے نہیں بھلا پائیں گے۔
Published: 21 Dec 2020, 6:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 21 Dec 2020, 6:10 PM IST