کانگریس رکن پارلیمنٹ غلام نبی آزاد کی مدت کار راجیہ سبھا میں ختم ہو رہی ہے، جس کے پیش نظر آج ان کے اعزاز میں وزیر اعظم نریندر مودی سمیت کئی اراکین پارلیمنٹ نے وداعی تقریر کی۔ بعد ازاں غلام نبی آزاد نے ایک ایسی پرمغز اور جذباتی تقریر کی جسے سن کر ایوان میں موجود سبھی اراکین مسحور ہو گئے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں خود کے ہندوستانی ہونے اور پاکستان میں پیدا نہ ہونے پر فخر کا اظہار کیا۔ غلام نبی آزاد نے تقریر کے دوران کہا کہ ’’میں خوش قسمت ہوں کہ پاکستان نہیں گیا اور مجھے اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر ہے۔ جیسی برائیاں پاکستانی سماج میں ہیں، وہ برائیاں ہندوستانی مسلمان میں نہیں ہیں۔‘‘
Published: undefined
اس سلسلے میں ہندی نیوز پورٹل ’اے بی پی لائیو‘ پر ایک خبر شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ غلام نبی آزاد نے ہندوستانی مسلمان ہونے پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’میری ہمیشہ یہ سوچ رہی ہے کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہم جنت یعنی ہندوستان میں رہ رہے ہیں۔ میں تو آزادی کے بعد پیدا ہوا، لیکن آج گوگل کے ذریعہ اور یوٹیوب کے ذریعہ میں پڑھتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ میں ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جو کبھی پاکستان نہیں گیا۔ لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ پاکستان میں کس طرح کے حالات ہیں تو مجھے ہندوستانی ہونے پر فخر ہوتا ہے۔ فخر ہوتا ہے کہ ہم ہندوستانی مسلمان ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’آج دنیا میں کسی مسلمان کو فخر ہونا چاہیے تو وہ ہندوستان کے مسلمان کو ہونا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
اپنی وداعی تقریر کے دوران غلام نبی آزاد جموں و کشمیر میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کا بھی تذکرہ کیا اور پھر وہ انتہائی جذباتی ہوگئے۔ انھوں نے جموں و کشمیر کی صورت حال پر مختصر لیکن جامع تبصرہ کیا۔ بعد ازاں جموں و کشمیر میں اپنے زمانۂ طالب علمی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں جموں و کشمیر کے سب سے بڑے کالج ایس پی کالج میں پڑھتا تھا۔ وہاں 14 اگست (پاکستان کی آزادی کا دن) بھی منایا جاتا تھا اور 15 اگست بھی۔ وہاں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو 14 اگست مناتے تھے، اور جو لوگ 15 اگست مناتے تھے میں ان میں شامل تھا۔‘‘
Published: undefined
اپنی تقریر میں غلام نبی آزاد نے طالبان اور افغانستان کے حالات پر بھی بات کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم گزشتہ 35-30 سالوں سے طالبان اور افغانستان جیسے ممالک کو دیکھ رہے ہیں۔ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جو آپس میں لڑ رہے ہیں۔ وہاں ہندو یا عیسائی نہیں ہیں، وہاں مسلمان ہیں، پھر بھی آپس میں لڑائی کر رہے ہیں۔ جو سماج میں پھیلی ایک برائی ہے۔ آج ہم فخر سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک کے مسلمانوں میں وہ برائی نہیں ہے۔ لیکن یہاں اکثریتی طبقہ کو بھی دو قدم آگے آنے کی ضرورت ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز