اسد رضوی
اترپردیش میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس کے رویہ سے متعلق ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاستی پولیس مکمل طور پر ’فرقہ پرست‘ ہو چکی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ احتجاج کے دوران گرفتار افراد کو پولیس ’پاکستانی‘ اور ’شہری نکسل‘ (اربن نکسل) کہہ کر مار رہی ہے۔
Published: 16 Jan 2020, 10:29 PM IST
خواتین کی تنظیم آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسو سی ایشن (اے آئی ڈی ڈبلیو اے، ایڈوا) کے ذریعہ پیش کی گئی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 19 دسمبر 2019 کو ہونے والے احتجاج کے بعد پولیس نے مسلم طبقہ اور سول سوسائٹی کو نشانہ بنایا۔ ’ایڈوا‘ نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ 19 دسمبر کو گرفتار ہونے والوں میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے لوگ بھی شامل تھے، لیکن تھانہ حضرت گنج پولیس نے رہنماؤں کی کال آنے کے بعد ان کے خلاف نہ کوئی مقدمہ لکھا اور نہ ہی انہیں جیل بھیجا گیا۔
Published: 16 Jan 2020, 10:29 PM IST
وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے انتقام لینے والے بیان کے بعد پولیس نے مسلم علاقوں میں چھاپے مار کی۔ پولیس نے راجدھانی لکھنؤ کے حسین آباد، کھدرا (حسن گنج) اور مولوی گنج (امین آباد) علاقوں میں نوجوانوں کو گرفتار کرکے ان کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی۔ ایڈوا کی رپورٹ کے مطابق پولیس ٹوپی اور داڑھی دیکھ کر ہی مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ پولیس میں اقلیتی برادری کے خلاف اس قدر نفرت بھری ہے کہ پولیس مسلمانوں کی داڑھیاں تک نوچ رہی تھی! کھدرا علاقہ میں ایک شخص کے ہاتھ پر پولیس نے تھوکا اور پھر اسے چاٹنے کو کہا!
Published: 16 Jan 2020, 10:29 PM IST
پولیس نے نہ صرف نوجوانوں بلکہ بزرگوں کو بھی نشانہ بنایا۔ حضرت گنج کے سول اسپتال سے لوٹ رہے محمد نسیم (68) کو پولیس نے 19 دسمبر 2019 کو گرفتار کیا اور حراست میں ان کو ’پاکستانی ملا‘ کہہ کر پکارا گیا! پولیس نے محمد نسیم کو پانی تک نہیں دیا۔ جب انہیں طبی معائنے کے لئے اسپتال لے جایا جارہا تھا، تو گاڑی میں بیٹھے ایک شخص نے ان کی ران میں پینچ کس گھسا دیا!
ہوٹل منیجمنٹ کا کورس کر چکے محمد فیض (24) بھی شہریت ترمیم قانون کے خلاف احتجاج کرنے گئے تھے لیکن پولیس نے انہیں جائے مظاہرہ (پریوورتن چوک) تک نہیں جانے دیا۔ فیض نے جب دیکھا یہ مظاہرہ پُر تشدد ہو رہا ہے تو وہ اپنے دوستوں فیصل (24) اور فہد (23) کے ساتھ شرما ٹی اسٹال پر چائے پینے چلے گئے۔
Published: 16 Jan 2020, 10:29 PM IST
شام کے تقریباً ساڑھے پانچ بجے جب یہ لوگ اپنی اسکوٹی لینے پریوورتن چوک پہنچے تو پولیس نے انھیں پوچھ گچھ کے لئے بلایا۔ خواتین کی تنظیم ایڈوا کی رپورٹ کے مطابق، پولیس نے جیسے ان کا مسلم نام سنا، انہیں ’پاکستانی‘ ، ’ملا‘ اور جہادی وغیرہ کہا اور گالیاں دینا شروع کر دیں اور مارتے ہوئے انہیں حضرت گنج پولیس اسٹیشن لے گئی۔ فیض کو اب ضمانت مل چکی ہے، وہ فٹ بال کے کھلاڑی ہیں اور ہندوستان کے لئے بین الاقوامی سطح پر کھیلنا چاہتے ہیں۔ انہیں اس کی بہت تکلیف ہے کہ تحویل میں پولیس نے انہیں ’قوم کا غدار‘ کہا!
حفیظ الرحمن (28) کو احتجاج کے 5 دن بعد 5 دسمبر 2019 کو ان کے گھر سے طلب کیا گیا، جبکہ مظاہرے کے دن اپنے کینسر سے متاثرہ والد کی دوا لینے آشیانہ گئے ہوئے تھے۔ سول کورٹ میں فوکیدار حفیظ الرحمن کو فون پر اطلاع ملی کہ ان کا نام اخبار میں فسادی کے طور پر شائع ہوا ہے۔ جب وہ اخبار دیکھنے گھر سے نکلے تو وہاں پہلے سے موجود پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔
Published: 16 Jan 2020, 10:29 PM IST
جب مقامی لوگوں نے حفیظ الرحمن کی گرفتاری پر احتجاج کیا تو پولیس نے انھیں ’پاکستانی‘ کہہ کر کھدیڑ دیا۔ ان کی گرفتاری کئے خلاف تھانے پر خواتین نے بھی احتجاج کیا لیکن خاتون پولیس کی دو گاڑیاں طلب کر لی گئیں اور خاتون مظاہرین کو تھانے سے باہر نکال دیا گیا۔ حفیظ الرحمن کو شام ہونے سے پہلے جیل بھیج دیا گیا۔
کھیلوں میں متعدد تمغے جیتنے والے اسامہ (20) کو بھی فساد میں ملوث ہونے کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا ہے۔ جبکہ بی کام فرسٹ ایئر کے طالب علم اسامہ 19 دسمبر 2019 کو بیڈمنٹن کھیل رہے تھے اور ان کے اہل خانہ کے پاس ان کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے۔ اپنے نانا کے انتقال کے بعد ان کی قبر کے لئے جگہ دیکھنے جا رہے استھما کے مریض محمد صمد (20کو بھی پولیس نے حراست میں لے لیا۔ شدید علالت کے باوجود پولیس نے ان پر اس قدر تشدد کیا کہ وہ بے ہوش ہو گئے اور ان کو اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ اگرچہ ان کو جیل نہیں بھیجا گیا ہے لیکن ان کے اہل خانہ کو بھی یہ ثبوت پیش کرنے کے لئے نوٹس ملا ہے کہ وہ مظاہرے میں شامل نہیں تھے۔
Published: 16 Jan 2020, 10:29 PM IST
پولیس صرف مسلم طبقہ سے وابستہ لوگوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ سماجی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں کے ساتھ بھی نازیبا سلوک کیا۔ پولیس تحویل میں سماجی کارکن دیپک کبیر پر تھرڈ ڈگری استعمال کی گئی جبکہ پروفیسر رابن ورما کو حضرت گنج تھانے پر مظاہروں کی پاداش میں زد و کوب کیا گیا۔ ایک طرف جہاں مسلمانوں کو پولیس نے ’جہادی‘ وغیرہ کہتے ہوئے مارا پیٹا، وہیں سماجی کارکنوں کو ’اربن نکسل‘ کہہ کر پیٹا گیا۔
Published: 16 Jan 2020, 10:29 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 16 Jan 2020, 10:29 PM IST