بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) کے ڈین آف اسٹوڈنٹس اور آئی ایم ایس و سر سندر لال میڈیکل کالج کے شعبہ چشم کے سربراہ پروفیسر ایم کے سنگھ کو چیف پراکٹر بنایا جانا یونیورسٹیوں کے ضابطوں کے مطابق درست ہے؟ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے، اور ساتھ ہی ایک سوال یہ بھی ہے کہ ایم کے سنگھ ڈین آف اسٹوڈنٹ تھے، ان کے اوپر اسٹوڈنٹس کی سیکورٹی کی ذمہ داری تھی، جس میں وہ نااہل ثابت ہوئے۔ اس کے بعد انھیں سزا دینے کے بجائے ڈین آف پراکٹر کیوں بنایا گیا۔ ان کی اس عزت افزائی کے پیچھے وی سی گریش چندر ترپاٹھی کی کیا حکمت عملی ہو سکتی ہے؟
غور کیا جائے تو بی ایچ یو کیلنڈر کے مطابق ان کی تقرری یونیورسٹی کے ضابطوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس وقت پروفیسر ایم کے سنگھ کے پاس تین اہم ذمہ داریاں ہیں اس لیے ناراض یونیورسٹی اساتذہ نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ یہ بی ایچ یو کے قوانین کے خلاف ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایم کے سنگھ کو سزا دیے جانے کی جگہ انعام دیا جانا باعث مایوسی ہے۔ علاوہ ازیں جس وقت چھیڑخانی کے خلاف طالبات نے تحریک چلائی تھی اس وقت پروفیسر ایم کے سنگھ ڈین آف اسٹوڈنٹ تھے اور ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اسٹوڈنٹس کے تحفظ کو یقینی بناتے۔ اس ذمہ داری میں وہ پوری طرح ناکام ثابت ہوئے۔ اسٹوڈنٹ تحریک کو صحیح طریقے سے سنبھالنے میں ناکامی کے بعد جس طرح سے چیف پراکٹر کو ہٹایا گیا، اسی طرح سے پروفیسر ایم کے سنگھ کو بھی ہٹایا جانا چاہیے تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس معاملے میں بی ایچ یو کے وائس چانسلر گریش چندر ترپاٹھی نے بہت چالاکی کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنے قابل اعتماد پروفیسر ایم کے سنگھ کو آناً فاناً میں چیف پراکٹر بنا کر انتظامیہ کی پوری ذمہ داری اپنے پاس رکھ لی ہے۔
Published: 28 Sep 2017, 6:36 PM IST
غور طلب ہے کہ بی ایچ یو میں جب طالبات مخالفت میں آواز اٹھا رہی تھیں اور لاٹھی چارج وغیرہ ہو رہا تھا، اس وقت بھی وائس چانسلر گریش چندر ترپاٹھی اپنے خاص لوگوں کی تقرری میں مصروف تھے۔ ان میں سے جنسی استحصال کے ملزم ڈاکٹر او پی اُپادھیائے کو میڈیکل سپرنٹنڈنٹ بنائے جانے کا معاملہ پہلے ہی سامنے آ چکا ہے۔ ڈاکٹر اُپادھیائے کا انٹرویو 25 ستمبر کو لیا گیا تھا۔ اُن کے اوپر فجی میں ایک خاتون پر جنسی استحصال کا معاملہ ثابت ہو چکا ہے اور اس کے بعد بھی انھیں انٹرویو کے لیے بلایا جانا اور وائس چانسلر کے ذریعہ ان کی تقرری کی کوشش کرنا بتاتا ہے کہ جاتے جاتے بھی گریش چندر ترپاٹھی اپنے لوگوں کی تقرری کرنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ فی الحال الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ آناً فاناً میں بہت سی تقرریاں کی گئی ہیں۔ گزشتہ 17 ستمبر کو اسسٹنٹ جنرل سکریٹری عہدہ کے لیے تحریری امتحان لیا گیا ہے۔ اس کے بعد 22 ستمبر کو دیر رات اس کا نتیجہ بھی جاری کر دیا گیا اور منتخب لوگوں کو 24-25 ستمبر کو انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔ اس پورے معاملے پر کئی اساتذہ نے سخت اعتراض ظاہر کیا ہے کیونکہ ضابطوں کے مطابق انٹرویو کے لیے منتخب لوگوں کو 21 دن قبل خط بھیج کر مطلع کیا جانا چاہیے۔ اس پورے عمل پر اعتراض ظاہر کیے جانے کے سبب ہنوز بی ایچ یو انتظامیہ خاموش ہے۔ لیکن یہ بات سچ ہے کہ انٹرویو ہوا ہے اور ضابطوں کی خلاف ورزی بھی ہوئی ہے۔ اس بات کا اعتراف کئی اساتذہ نے ’قومی آواز‘ سے گفتگو میں کیا۔
Published: 28 Sep 2017, 6:36 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 28 Sep 2017, 6:36 PM IST