اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات کو لے کر بھلے ہی ابھی تک کسی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا ہے، اور اس میں سات آٹھ مہینے باقی ہیں، لیکن چھوٹی بڑی سبھی سیاسی پارٹیوں نے ابھی سے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ ریاست میں الیکشن سے قبل اپنی اہمیت ظاہر کرنے کے مقصد سے جہاں بی جے پی لیڈروں کے درمیان اٹھا پٹخ جاری ہے، وہیں سماجوادی پارٹی جلد سے جلد اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرنا چاہتی ہے تاکہ بعد میں پارٹی کو کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس درمیان کانگریس نے بھی ’مشن یو پی‘ کا باضابطہ آغاز کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ جولائی کے پہلے ہفتہ میں یو پی کانگریس انچارج پرینکا گاندھی لکھنؤ پہنچنے والی ہیں جہاں وہ کم و بیش پانچ دن قیام کریں گی اور اسمبلی الیکشن کو لے کر لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔
Published: undefined
ویسے تو پرینکا گاندھی کی قیادت میں یو پی اسمبلی انتخابات کی تیاریاں کانگریس نے بہت پہلے سے ہی شروع کر رکھی ہے، لیکن جولائی سے اس مہم کو سمت و رفتار عطا کیے جانے کا منصوبہ ہے۔ آئندہ ماہ لکھنؤ میں قیام کے دوران پرینکا گاندھی تنظیمی سطح پر کئی میٹنگیں کرنے والی ہیں۔ کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کو معلوم ہے کہ یوپی میں کانگریس کے لیے پہلے والا وقار حاصل کرنا آسان نہیں ہے، اس لیے وہ یو پی میں رہ کر ہی پارٹی کو قوت عطا کرنے کے لیے جدوجہد کریں گی۔ یو پی الیکشن تک پرینکا گاندھی اپنا زیادہ تر وقت لکھنؤ اور یو پی کے مختلف اضلاع میں ہی گزارنے کی تیاری کر رہی ہیں۔
Published: undefined
ذرائع کے مطابق الگ الگ مقامات پر پرینکا گاندھی کی رہائش کے لیے انتظامات بھی کیے جا رہے ہی۔ لکھنؤ کے جاپلنگ روڈ واقع جس ’کول ہاؤس‘ میں پرینکا گاندھی کو رہنا ہے، اس کی صاف صفائی اور مرمت کا کام بھی جاری ہے۔ قابل ذکر ہے کہ کول ہاؤس گورنر رہ چکیں شیلا کول کا گھر ہے جو کہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی مامی تھیں۔ اس بنگلے میں مہاتما گاندھی سے لے کر سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو تک آ چکے ہیں۔ ان بڑی ہستیوں کے اس بنگلے میں آنے کی نشانیاں آج بھی موجود ہیں۔ دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی دائیں طرف ایک ’وَٹ ورِکچھ‘ (درخت) ہے جسے مہاتما گاندھی نے لگایا تھا۔ بنگلے کے اندر ایک آم کا درخت بھی ہے جسے 1936 میں جواہر لال نہرو نے لگایا تھا۔
Published: undefined
بہر حال، آئندہ یو پی اسمبلی انتخابات میں کانگریس اس کوشش میں ہے کہ پرینکا گاندھی کا چہرہ آگے رکھ کر پارٹی اپنا وقار ایک بار پھر حاصل کرے اور الیکشن کا ریزلٹ جب سامنے آئے تو مینڈیٹ بھی پارٹی کے حق میں ہو۔ کانگریس کے لیے پریشانی یہ ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے وہ یوپی کے اقتدار سے باہر ہے اور 2014 لوک سبھا الیکشن میں صرف امیٹھی اور رائے بریلی سیٹوں پر ہی کانگریس کو جیت مل پائی تھی۔ علاوہ ازیں 2017 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو محض 7 سیٹیں حاصل ہو پائی تھیں۔ پھر 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں پارٹی کو اس وقت زبردست جھٹکا لگا جب راہل گاندھی امیٹھی سے الیکشن ہار گئے اور کانگریس صرف سونیا گاندھی کی رائے بریلی سیٹ ہی جیت سکی۔ ایسے حالات میں 2022 کا یو پی اسمبلی الیکشن کانگریس کے لیے ایک ایسا چیلنج ہے جس میں پرینکا گاندھی کی پوری ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرینکا آنے والے دنوں میں یو پی کو اپنا مسکن بنائیں گی اور الیکشن تک زیادہ تر وقت ریاست میں ہی گزاریں گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined