بی جے پی نے اپنی پارٹی کے وقف کارکن دروپدی مرمو کو صدر جمہوریہ بنانا طے کیا ہے۔ مرمو کا انتخاب بہت غور و خوض کے بعد کیا گیا، اور ان کی حمایت میں وزیر اعظم نے جو کچھ کہا وہ بھی بتاتا ہے کہ یہ فیصلہ کتنے قرینے سے لیا گیا ہے۔ جب آپ کے پاس بی جے پی جیسی اکثریت ہو اور یہ یقینی بھی ہو کہ آپ جسے چاہیں گے اسے صدر جمہوریہ بنا لیں گے، تب صبر اور انکساری کا معاملہ آسان بھی ہوتا ہے۔ لیکن ایسا کہہ کر پارٹی کے سیاسی مقاصد کو کم نہیں کیا جا سکتا۔
Published: undefined
کہنے والے کہتے ہیں کہ مرمو کی جیت ملک کے قبائلیوں کو مضبوطی فراہم کرے گی، خواتین کو مضبوطی ملے گی۔ کیا ایسا ہوتا ہے؟ ہم نے اب تک سارے انسانوں کو ہی صدر جمہوریہ بنایا ہے، تو کیا ملک میں انسان کی حیثیت مضبوط ہوئی ہے؟ ہم نے مسلمان، دلت، عورت کو بھی صدر جمہوریہ بنایا ہے، تو کیا ان سب کی حیثیت مضبوط ہوئی ہے؟ یہ دھوکہ ہے جو سیاست میں قابل ہضم ہے، ملک کے لیے فائدہ پہنچانے والا نہیں۔ یشونت سنہا نے تو اپنی امیدواری سے پہلے اپنی پارٹی ترنمول کانگریس سے استعفیٰ دے دیا، تاکہ آئین کی منشا کا کچھ وقار رہ جائے، لیکن بی جے پی اور مرمو نے تو اس کی ضرورت بھی نہیں سمجھی۔
Published: undefined
آئین کا تصور یہ ہے کہ پارلیمانی نظام کے سیاسی نظام کا مکھیا ایک ایسا شخص ہو جو پارلیمنٹ سے بندھا نہ ہو، اقتدار کے کھیل نہ کھیلتا ہو۔ وزیر اعظم ایسا شخص نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ تو پارٹی اور اقتدار کے لیے سبھی طرح کے کھیل کھیلتا ہے اور اسی طاقت پر کرسی پر بیٹھا رہتا ہے۔ مہاتما گاندھی نے اسی لیے ’ہند سوراج‘ میں لکھا ہے کہ وہ وزیر اعظم کو محب وطن ماننے کو بھی تیار نہیں ہیں کیونکہ اس کے کسی بھی فیصلے کی بنیاد ملکی مفاد نہیں ہوتی، وہ تو اپنے اقتدار کو ملک کا مفاد بتا کر سبھی غلط کام کرتا ہے۔
Published: undefined
ہمارا آئین بالکل سیدھی سی بات کہتا ہے کہ پارلیمانی سیاست میں امپائر وہی ہو سکتا ہے جو خود کسی ٹیم کی طرف سے نہ کھیلنے لگے۔ آئین کہتا ہے کہ امپائر کا کام ہے کھلاڑیوں کو کھیلنے دے اور اس پر سخت نظر رکھے کہ سبھی ضابطہ کے مطابق کھیلیں۔ کوئی ضابطے سے باہر گیا نہیں کہ امپائر کی سیٹی بجی۔ کیا ایسا غیر جانبدار شخص تلاش کرنا اور اس کا ملنا ممکن ہے؟ بالکل ممکن ہے لیکن تبھی جب آپ اپنے پارٹی اور اقتدار پر مبنی مفادات کے دائرے کے باہر دیکھنے اور تلاش کرنے لگیں، اور ایسا تبھی کر سکیں گے جب آئین کو اپنا راہنما مانیں گے۔
Published: undefined
ہمیں آج ایسا صدر جمہوریہ چاہیے جس میں راجندر پرساد، سروپلی رادھاکرشنن، کوچیرل رامن نارائنن اور اے پی جے عبدالکلام ان چاروں کی خصوصیت موجود ہو۔ خاص توجہ دینے کی بات یہ ہے کہ چاروں پارٹی پالیٹکس سے دور اور خاص اہمیت کے حامل افراد تھے۔ راجندر پرساد آزادی کی لڑائی کی قیادت کرنے والوں میں شامل تھے۔ اس دور کی شاید ہی کوئی ایسی ہستی ہو جو آزادی کی لڑائی کا سپاہی ہو لیکن کانگریس سے جڑا نہ ہو۔ ہندوستانی جمہوریت کے پہلے سرپرست کے کردار میں راجندر پرساد اس لیے انوکھے ہیں کہ صدر جمہوریہ کیسا ہو، کیا کرے، کیا نہ کرے، کیا بولے، کیا نہ بولے، ان سب کا فیصلہ ان کا ہی ہوتا ہے۔ جیسے جواہر لال نہرو آزادی کے بعد کے ابتدائی سالوں میں اس ملک کے محض وزیر اعظم نہیں تھے، پارلیمانی جمہوریت کے پیمانوں کے معمار بھی تھے۔ کچھ ویسا ہی کردار راجندر پرساد نے بھی نبھایا۔ جواہر لال کی حکومت سے وہ کئی معاملوں میں عدم اتفاق رکھتے تھے۔ وہ نااتفاقی انھوں نے کبھی چھپائی نہیں۔ آئین کے مطابق ہندوستانی صدر کے کردار کی پہلی سنجیدہ بحث انھوں نے اپنی ہی مدت کار میں کھڑی کی تھی اور اس سے کافی ہلچل بھی پیدا ہوئی تھی۔ وہ اس کے تئیں ہمیشہ محتاط بھی تھے کہ وہ راجندر پرساد کی نہیں، ہندوستان کے صدر کے آئینی کردار کا کیل-کانٹا بنا رہے ہیں جس پر اس نوزائیدہ جمہوریت کو اپنا ڈھانچہ کھڑا کرنا ہے۔ ہندوستان کے ہر صدر کو یہ ذمہ داری راجندر پرساد سے وراثت میں ملی ہے۔
Published: undefined
سروپلی رادھاکرشنن ان صدور کے درجے میں آتے ہیں جس کا تصور فلسفی ارسطو نے کیا تھا۔ دانشوری میں اپنی مثال آپ رادھاکرشنن کبھی خاموش یا ’ربر اسٹامپ‘ صدر جمہوریہ نہیں رہے۔ انھوں نے صدر جمہوریہ کا آئینی دباؤ جواہر لال نہرو پر بھی اور بعد میں اندرا گاندھی پر بھی بنائے رکھا۔ کے آر نارائنن سفارتکار اور ماہر معیشت تھے۔ وہ ملک کے پہلے دلت صدر تھے اور انتہائی ماہر و عمیق نگاہ رکھتے تھے۔ اے پی جے عبدالکلام صاحب اٹل بہاری واجپئی کی پسند تھے لیکن انھوں نے ہر چند کوشش کی کہ وہ پارٹی کی نہیں ملک کی پسند بنیں۔ انھوں نے صدر جمہوریہ عہدہ کو اور اس کے طریقہ کار کو بھی جمہوری جامہ پہنایا۔ جب وہ سائنس کی دنیا سے سیاست کی دنیا میں لائے گئے تو سیاست کی اپنی سوچ رہی ہی ہوگی، لیکن کلام صاحب نے کبھی ’اُن کا‘ یا ’اِن کا‘ کھیل نہیں کھیلا۔ انھیں ’عوام کا صدر‘ کہا گیا تو اس لیے کہ وہ نہ خوفزدہ کرتے تھے، نہ خوفزدہ ہوتے تھے۔
Published: undefined
ان چاروں کی خوبیوں کا مجموعہ آج کے صدر میں اس لیے چاہیے کیونکہ ہندوستانی پارلیمانی جمہوریت اور ملک کی شکل میں ہندوستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ تب آزادی کو ایک معنی خیز شکل دینے کا چیلنج تھا، آج 75 سال پرانی پارلیمانی جمہوریت کو پٹری پر بنائے رکھنے اور اس کی ترقی کے امکانات کو پختہ کرنے کا چیلنج ہے۔ یہ صبر، صلاحیت، دانشوری، آئین کی گہری جانکاری اور اس کے تئیں عزائم کا مطالبہ کرتا ہے۔ آج ملک کو ایسے صدر کی ضرورت ہے جو ملک اور آئین سے آگے اور اس سے پیچھے نہ دیکھے، نہ دیکھنے دے۔
(نوجیون انڈیا ڈاٹ کام کے لیے کمار پرشانت کے لکھے گئے ہندی مضمون کا ترجمہ)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز