نئی دہلی: اردو بطور زبان کے مقبول ہو رہی ہے، لیکن اس کا رسم الخط دن بہ دن محدود ہو رہا ہے۔ اردو کے سامعین بڑھ رہے ہیں، لیکن قارئین کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے، جو ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔ ہم سب کو مل کر اردو رسم الخط کو بچانے کے جتن کرنے چاہئیں، کیونکہ رسم الخط کے بغیرکسی بھی زبان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اور ادیب معصوم مرادآبادی نے یہاں جی ڈی چندن میموریل لیکچر دیتے ہوئے کیا۔
Published: undefined
غالب اکیڈمی نئی دہلی کے زیراہتمام منعقدہ اس تقریب کے شروع میں اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے جی ڈی چندن کی صحافتی اور ادبی خدمات کا تذکرہ کیا۔ واضح رہے کہ جی ڈی چندن اردو کے جید صحافی اور محقق تھے اور انھوں نے اردو صحافت کے کئی پہلوؤں پر گراں قدر تحقیقی کام کئے۔
Published: undefined
’اردوصحافت کو درپیش چیلنجز‘کے عنوان سے جی ڈی چندن یادگاری خطبہ پیش کرتے ہوئے معصوم مرادآبادی نے ملک گیر سطح پر اردو اخبارات وجرائد کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ انھوں نے کہا کہ کسی بھی زبان کی صحافت کی ترقی دراصل اس زبان کی ترویج واشاعت سے مربوط ہوتی ہے۔ اگر زبان ترقی کرتی ہے تو صحافت میں بھی چارچاند لگتے ہیں اور اگر زبان روبہ زوال ہوتی ہے تو صحافت بھی پیچھے چلی جاتی ہے۔
Published: undefined
انھوں نے کہا کہ جن صوبوں میں اردو تعلیم کا خاطر خواہ بندوبست ہے، وہاں اردو صحافت ترقی کرر ہی ہے، لیکن جہاں اردوتعلیم کا نظام تہس نہس ہوگیا ہے، وہاں اردو اخبارات بھی دم توڑ رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان صوبوں میں اردو کے نئے قاری نہیں پیدا ہو رہے ہیں۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت اردو تعلیم کی سب سے بہتر حالت مہاراشٹر میں ہے جہاں سرکاری سطح پر ہزاروں اردو میڈیم اسکول ہیں اور اردو کی سب سے بدترحالت اترپردیش میں ہے جہاں کے لاکھوں پرائمری اسکولوں میں ایک بھی اردو میڈیم اسکول نہیں ہے۔
Published: undefined
معصوم مرادآبادی نے کہا کہ اردو صحافت کے سامنے ایک اور مسئلہ بگڑتی ہوئی زبان کا ہے۔ نئے صحافی زبان وبیان کے معاملے میں حساس نہیں ہیں اور وہ دوسری زبانوں کے غیر مانوس الفاظ کو خبروں میں استعمال کر رہے ہیں، جس سے قارئین کا ذائقہ بگڑ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نئے صحافیوں کی تربیت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ بیشتر نوجوان اردوصحافت کو ایک پروفیشن کے طور پر اختیار نہیں کرتے بلکہ وہ وقت گزاری کے لیے اس سے وابستہ ہوتے ہیں۔ انھوں نے تجویز پیش کی کہ ملک کے مختلف حصوں میں نئے اردو صحافیوں کے لیے ورکشاپ منعقد ہونا چاہئیں تاکہ ان کی زبان، ذہن اور ضمیر تینوں کی تربیت ہوسکے، کیونکہ اردو صحافت آج بھی ایک پروفیشن سے زیادہ مشن کا درجہ رکھتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز