سہارنپور/ہریدوار /میرٹھ: میرٹھ کے دورالا قصبہ میں گزشتہ مہینے ایک سنسنی خیز واقعہ پیش آیا۔ یہاں کے گاؤں سکوتی کے ایک انٹر کالج میں آٹھویں کلاس کے پانچ بچے شراب کے نشہ میں اسکول پہنچے۔ اس حیرت انگیز واقعہ کے بعد اسکول انتظامیہ نے شراب کا انتظام کرنے والے ایک طالب علم کو معطل کر دیا جبکہ دیگر چار کے والدین کو بلا کر انتباہ کر کے چھوڑ دیا گیا۔ کچھ طلبا کا کہنا ہے کہ مذکورہ پانچ طلبا نے کلاس کے اندر ہی شراب نوشی کی تھی۔ یہ پانچوں صبح پریئر کے لئے گراؤنڈ میں نہیں پہنچے اور جب دیگر طلبا لوٹے تو ان کو انہیں شراب نوشی کرتے پایا۔ تحقیقات کرنے پر معلوم چلا کہ روہاسا، دشترھپور اور جمال پور کے اور بھی بچے ایسا دوسری کلاسوں میں کر رہے تھے۔
Published: undefined
سہارنپور اور ہریدوار کے روڑکی میں زہریلی شراب کی وجہ سے 100 سے زائد اموات واقع ہونے کے بعد بے دار ہونے والی حکومت اور پولس کی نظر میرٹھ کے نزدیک پیش آنے والے اس واقعہ پر پڑ جاتی یو شاید اس کچی شراب کے غیر قانونی دھندے کو تباہ کرنے میں کامیاب رہتی۔
Published: undefined
سہارنپور، روڑکی (اتراکھنڈ)، مظفرنگر، میرٹھ اور بجنور کے کھادر علاقہ میں کچی شراب کی بھٹیاں قائم کی گئی ہیں اور یہاں جنگلات میں بڑے پیمانے پر شراب کھینچی جاری ہے۔ اس ہولناک واقعہ کے بعد انتظامیہ کی آنکھیں کھلی ہیں۔
کچی شراب کھینچنے کا یہ نیٹورک میرٹھ کے ہستناپور، مظفرنگر کے پور قاضی، روڑکی کے بھگوانپور اور چلکانہ میں موجود ہے اور ان علاقوں میں سینکڑوں بھٹیوں میں آگ بھبک رہی ہے۔ گنگا سے ملحقہ ان علاقوں میں محکمہ آبکاری کے افسران اور پولس اہلکاربھی جانے کی ہمت نہیں کر پاتے، کئی مرتبہ ان پر حملے بھی کئے گئے ہیں۔
بی ایس پی کے دور حکومت میں سال 2009 میں ضرور ایک آپریشن کے دوران ان زہر کے سوداگروں پر ضرور کچھ مہینے کے لئے لگام لگ گئی تھی لیکن اس کے بعد اس دھندے کو پھر سے کھڑا کر لیا گیا۔
Published: undefined
دراصل بی ایس پی کے دور میں زہریلی شراب پینے والے ایک درجن لوگ مارے گئے تھے، جس کے بعد میرٹھ کے آئی جی جاوید اختر کی قیادت میں یہاں سینکڑوں بھٹیاں تباہ کر دی گئیں اور اس دھندے پر لگام لگائی گئی، لیکن اب یہ دھندا اور بھی طاقتور ہو چکا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس دھندے میں محکمہ آبکاری اور پولس بھی شامل ہے۔
Published: undefined
پولس نے 12 فروری کو ارجن نامی ایک شخص کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے۔ سہارنپور انتظامیہ کے مطابق اسی ارجن نے کیمیکل کا استعمال کر کے 6 ڈرم شراب کھینچی تھی۔ اس نے 6 میں سے تین ڈرم شراب بیچ دی تھی اور اسی نے کہرام مچا دیا۔ اگر شراب کے تمام 6 ڈرم فروخت ہو جاتے تو مرنے والوں کی تعاداد دوگنی ہو جاتی۔ پولس کا کہنا ہے کہ شراب بنانے کے لئے جس کیمیکل کا استعمال کیا گیا اسے بہت زیادہ مقدار میں شراب میں ڈال دیا گیا جس کی وجہ سے وہ زہر میں تبدیل ہو گئی۔
سہارنپور کے سابق رکن اسمبلی جگپال سنگھ کے مطابق کچی شراب کا غیر قانونی کاروبار پولس کی شہ پر چلتا ہے اور پولس بھی اس سے کافی منافع کماتی ہے۔ کچی شراب کے تمام دھندا کرنے والے پولس کے رابطہ میں رہتے ہیں۔
Published: undefined
ان کی تصدیق اس بات سے ہو جاتی ہے کہ پولس نے ایک رات میں ہی مہم چلا کر 30 افراد کو گرفتار کر لیا، 271 لیٹر شراب اور 350 لیٹر شراب بنانے میں استعمال ہونے والی لہن شرآمد کر لی۔ اس دوران سینکڑوں بھٹیاں تباہ کر دی تئیں اور درجنوں ملزمان گاؤں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ یہ کارروائی اگر وقت رہتے کی جاتی تو اتنی زیادہ تعداد میں لوگوں کی جانوں کا ضیاع نہیں ہوتا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined