وارانسی: وارانسی کی ضلع عدالت کے گیانواپی کے تہہ خانے میں پوجا کرنے کی اجازت فراہم کرنے کے بعد یہاں راتوں رات رکاوٹیں ہٹا دی گئیں اور آدھی رات کے بعد 2 بجے پوجا پاٹھ کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق یہاں 30 سال پہلے پوجا پاٹھ کرنے پر پابند عائد کر دی گئی تھی۔
Published: undefined
عدالت کے حکم کے بعد بدھ کی دیر رات گیانواپی کے ویاس تہہ خانے کے باہر اچانک ہنگامہ بڑھنے لگا اور رات 10 بجے وارانسی کے ضلع مجسٹریٹ اور ڈی آئی جی گیانواپی کے احاطے میں پہنچ گئے۔ اس کے بعد رکاوٹیں ہٹا دی گئیں اور گیانواپی کمپلیکس کے باہر پولیس کا زبردست محاصرہ کر لیا گیا۔ رات 2 بجے پولیس کمشنر اور ضلع مجسٹریٹ اکٹھے باہر آئے اور بتایا کہ عدالتی حکم کی تعمیل ہوئی ہے۔ پولیس کمشنر اشوک موتھا جین کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم کے مطابق سڑکوں کی تیاری، رکاوٹیں ہٹانے سمیت تمام حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔
Published: undefined
مقدمے میں ہندو فریق کی نمائندگی کرنے والے وکیل وشنو شنکر جین نے کہا، ’’ایس جی نے عدالت کے حکم کی تعمیل کی ہے۔ مورتیوں کو نصب کرنے کے بعد کے وی ایم ٹرسٹ کے پجاری کے ذریعہ شاین آرتی کی گئی۔ اس کے سامنے اکھنڈ جیوتی جلائی گئی۔ تمام دیوتاؤں کی روزانہ آرتی، صبح کی منگلا آرتی، بھوگ آرتی، شام کی آرتی، غروب آفتاب کی آرتی، شاین آرتی کی جائے گی۔‘‘
Published: undefined
عدالت کی جانب سے ویاس کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دینے کے بعد وکیل سوہن لال آریہ نے کہا، ’’آج ہم بہت فخر محسوس کر رہے ہیں۔ عدالت کا بدھ کا فیصلہ بے مثال تھا۔ عقیدت مندوں کے لیے کھول دیا گیا۔‘‘
ہندو فریق عدالت کے فیصلے کا موازنہ ایودھیا میں رام مندر کا تالا کھولنے کے فیصلے سے کر رہا ہے۔ خیال رہے کہ ویاس جی تہہ خانے میں پوجا کے حق کو لے کر ایک عرضی دائر کی گئی تھی۔ گیانواپی کے اس تہہ خانے میں 30 سال سے پوجا نہیں ہو رہی تھی۔ ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ 1993 تک وہ تہہ خانے میں موجود مورتیوں کی باقاعدگی سے پوجا کرتے تھے۔ لیکن 1992 میں بابری انہدام کے بعد اس وقت کی ملائم حکومت نے اس حق کو ختم کر کے انہیں پوجا کے حق سے محروم کر دیا تھا، پجاریوں کو بھی وہاں سے ہٹا دیا گیا تھا، اس کے بعد یہاں ہر سال ماتا شرینگار گوری کی پوجا کی جانے لگی تھی۔
Published: undefined
17 جنوری کو عدالت کے حکم پر ڈی ایم نے 24 جنوری کو تہہ خانے پر قبضہ کر لیا تھا۔ ہندو فریق مسلسل مطالبہ کر رہا تھا کہ انہیں دوبارہ پوجا کرنے کا حق دیا جائے۔ جبکہ مسلم فریق نے اس فیصلے پر اعتراض ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اسے ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined