کرناٹک انتخابات کی فکر وزیر اعظم نریندر مودی کو ملک کی خارجہ پالیسی سے زیادہ ستا رہی ہے۔ غالباً اسی لیے برطانیہ دورہ میں بھی وہ کرناٹک کے لنگایت ووٹروں کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بدھ کے روز لندن میں ٹیمس ندی پر واقع لنگایت سنت بسویشور کی مورتی کے سامنے ماتھا ٹیکا اور پوجا اَرچنا کی۔ برطانیہ دورہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کے اس پروگرام کو شامل کیا جانا کرناٹک انتخابات میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 2015 میں برطانیہ دورہ میں مودی نے سنت بسویشور کے مجسمہ کی لندن میں پردہ کشائی کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے برطانیہ کی وزیر اعظم تھیریسا سے ملاقات کے دوران بھگوان بسویشور کا تذکرہ بھی کیا۔ یہ بات ایک خبر رساں ادارہ نے دی۔
بہر حال، آج وزیر اعظم نریندر مودی نے صبح ایک ٹوئٹ کیا جس میں انھوں سنت بسویشور کی جینتی کا تذکرہ کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’ان کی جینتی پر میں بھگوان بسویشور کے آگے پیشانی جھکائے ہوئے ہوں۔ ہماری تاریخ اور ثقافت میں ان کا اہم مقام ہے۔ ان کا زور ہمیشہ سماجی برابری، اتحاد اور ہمدردی پر رہا اور وہ ہمیشہ ترغیب دیتے رہیں گے۔ بھگوان بسویشور نے سماج کو جوڑنے کا کام کیا اور ہمیں علم کی اہمیت سمجھائی۔‘‘
Published: undefined
اس ٹوئٹ کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی نے تقریباً دو منٹ کا ایک ویڈیو بھی شیئر کیا۔ یہ ویڈیو 2015 کا ہے جب انھوں نے سنت بسویشور کی اس مورتی کی پردہ کشائی کی تھی۔ نریندر مودی کے اس ٹوئٹ کو کرناٹک انتخابات سے ایک مہینے قبل لندن سے کھیلا گیا ’لنگایت کارڈ‘ تصور کیا جا رہا ہے۔ کانگریس نے پہلے ہی لنگایت طبقہ کو اقلیت کا درجہ دے کر اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ریاست میں اس طبقہ کی آبادی 17 فیصد ہے اور یہ انتخابات میں اہم کردار نبھاتے ہیں۔ کرناٹک میں 12 مئی کو اسمبلی انتخابات کے لیے ووٹنگ ہوگی اور 15 مئی کو نتائج آئیں گے۔
Published: undefined
کرناٹک کی تقریباً 100 اسمبلی سیٹوں پر لنگایت طبقہ کے ووٹروں کو اثرانداز تصور کیا جاتا ہے۔ موجودہ اسمبلی میں 224 میں سے 52 ممبران اسمبلی اسی طبقہ سے ہیں۔ اس کے علاوہ کرناٹک میں 400 سے زیادہ مٹھ لنگایتوں کے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ تقریباً 800 سال پہلے گرو باسونّا ’بسویشور‘ نام کے سماجی مصلح نے ذاتی نظام میں تفریق کے خلاف تحریک چھیڑی تھی۔ باسونّا کے نظریات کو ماننے والے ہی لنگایت اور ویرشیو ہیں۔ حالانکہ لنگایت خود کو ویرشیو سے الگ بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ویرشیو باسونّا سے بھی پہلے سے موجود ہیں۔ وہ شیو کو مانتے ہیں جب کہ لنگایت شیو کو نہیں مانتے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined