مشہور کتھا واچک یعنی مذہبی قصے بیان کرنے والے موراری باپو نے اے بی پی نیوز پر رام مندر سے لے کر راج دھرم اور سناتن دھرم تک خصوصی بات کی۔ موراری باپو اس وقت خصوصی ٹرین سے رام کتھا یاترا کے لیے روانہ ہوئے ہیں۔ 18 دنوں کے اس سفر میں ملک کے 12 جیوترلنگوں پر رام کتھا سنائی جائے گی۔ ان کے ساتھ اس خصوصی ٹرین میں 1008 عقیدت مند بھی سفر کر رہے ہیں۔
Published: undefined
اے بی پی نیوز سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے جب موراری باپو سے پوچھا گیا کہ موجودہ حالات کے تناظر میں معاشرے کو 100 میں سے کتنے نمبر دیں گے؟ اس پر موراری باپو نے کہا کہ وہ اپنی تشخیص کے مطابق صرف 30 نمبر دے سکتے ہیں۔ پانچ اوپر والا دے گا تو پاس ہو جائیں گے۔ موراری باپو نے کہا ’’پہلے میں ایک استاد تھا۔ 100 میں سے 35 پاسنگ مارکس تھے۔ جو امتحان میں 30 نمبر حاصل کرتے تھے، انہیں 5 نمبر بڑھا کر پاس کر دیتا تھا۔‘‘
Published: undefined
موراری باپو نے اس دوران کسی سیاسی پارٹی یا وزیر اعظم کا نام نہیں لیا۔ اس سے قبل شائع ہونے والے اس انٹرویو میں غلطی سے نمبر دینے کا معاملہ سامنے آیا تھا جو کہ غلط ہے۔
'راج دھرم میں سادھو کی رائے ضروری ہے'
راج دھرم کے سوال پر موراری باپو نے کہا ’’راج دھرم کا بیان رام چرت مانس میں کیا گیا ہے۔ سیاست اور راج دھرم الگ ہیں۔ سیاست میں سام (سمجھوتہ)، دام (قیمت)، دنڈ (سزا)، بھید (اختلاف) ہوتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی راج دھرم میں نہیں آتا۔ راج دھرم وہ ہے، جس میں پہلے سادھو کی رائے لی جاتی ہے، پھر لوگوں کی رائے لی جاتی ہے۔ اگر ہم سناتن کے ماننے والے ہیں تو ویدوں کی رائے لینی چاہیے۔ رامائن اور مہابھارت سے بھی رائے لیں۔ جس میں یہ چار چیزیں پائی جاتی ہیں، اسے راج دھرم کہتے ہیں۔
Published: undefined
آئین سناتن کے سائے میں ہونا چاہیے
سناتن یا آئین کے بارے میں اٹھائے گئے سوال پر موراری باپو نے کہا ’’آئین کو سناتن کے سائے میں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں پہلے سناتن پھر آئین ہونا چاہئے۔ رام کے نام پر کی جا رہی سیاست پر انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں نے رام کو ذریعہ بنا لیا ہے۔ اسے کچھ وقت کے لیے اپنے مفادات کے لیے بطور ذریعہ استعمال نہ کریں۔‘‘
Published: undefined
متھرا-کاشی تنازعہ پر بھی بات کی
گیانواپی تنازعہ پر انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے ہاتھ میں ہے، وہ فیصلہ کرے گا۔ موراری باپو نے کہا کہ عدالت جانے کے بجائے لوگوں کو آپس میں معاملہ سلجھا لینا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہو رہا، 70 سال سے ایسا نہیں ہو رہا، اس لیے انہیں عدالت جانا پڑ رہا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر سوشل میڈیا