گزشتہ دنوں وزیر اعظم نریندر مودی نے نیپال کا دورہ کیا اور وہاں آئینی تبدیلی کی حمایت میں کچھ نہیں بولے۔ اس معاملے پر مدھیشی سیاسی کارکنان نے ان کی سخت تنقید کی ہے۔ نیپال کے جنک پور کے رہنے والے مدھیشی علیحدگی پسند پروفیسر سی کے راؤت نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ ’’سبھی لوگ ان سے یہ امید کر رہے تھے کہ وہ اس ایشو پر بولیں گے، لیکن انھوں نے اس ایشو کو سرے سے نظر انداز کر دیا۔ حیرت ہے کہ انھوں نے ایک بار بھی مدھیشی لفظ کا بھی استعمال نہیں کیا۔‘‘ راؤت وزیر اعظم نریندر مودی کی اس تقریر کا حوالہ دے رہے تھے جو انھوں نے اپنے دورہ کے پہلے دن کی تھی۔
مدھیشی اکثریتی جنک پور میں وزیر اعظم مودی کے سفر کو ناکام قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’وہ دنیا کے اتنے بڑے قد کے لیڈر ہیں اس کے باوجود دور دراز کے ضلعوں سے بلائے گئے لوگوں کو ان سے ناامیدی ہاتھ لگی اور وہ بھاری دل سے گھر واپس لوٹے۔‘‘ راؤت نے اس بات کا بھی تذکرہ کیا کہ نیپالی سیکورٹی ایجنسیوں نے جنک پور میں ریلی والے مقام سے ان کی تقریر کے دوران 28 لوگوں کو گرفتار کر لیا، ان میں سے زیادہ تر کو اگلے دن چھوڑ دیا گیا۔ انھوں نے کہا ’’ان کا واحد جرم یہ تھا کہ وزیر اعظم مودی کے استقبال کی تختیاں لیے ہوئے تھے اور آزاد مدھیشی ریاست کی حمایت میں نعرے لگا رہے تھے۔‘‘ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ نیپال کی پولس ان پر 24 گھنٹے نگرانی رکھ رہی ہے۔
وزیر اعظم مودی کے ساتھ ریلی میں آئے ہوئے لوگوں کو خطاب کرنے والے صوبہ نمبر 2 کے وزیر اعلیٰ لال بابو راؤت نے اپنی تقریر کے دوران یہ کہا کہ تفریق آمیز آئین کے خلاف مدھیشی لوگوں کی جدوجہد جاری رہے گی۔ وزیر اعلیٰ راؤت نے کہا ’’حکومت مدھیشی کے خلاف تعصب کا شکار ہے۔ متعصب ذہنیت کی وجہ سے مدھیشی طبقہ زیادہ غریبی، بے روزگاری اور استحصال میں زندگی گزار رہا ہے۔‘‘
حکومت ہند کے سابق خصوصی سفیر اور نیپال معاملات کے ماہر پروفیسر ایس ڈی مُنی نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ’’آئین یا مدھیشیوں کے ایشو کو نہ تو وزیر اعظم نریندر مودی کے مشترکہ بیانوں میں اٹھایا گیا اور نہ ہی ان کی کسی تقریر میں۔‘‘
Published: undefined
مُنی کہتے ہیں کہ ’’وزیر اعلیٰ کا نریندر مودی کے سامنے یہ کہنا کہ آئین کے لیے ان کی جدوجہد جاری رہے گی، نئی دہلی کے لیے ایک بہت بڑا پیغام ہے۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ مدھیشی لوگوں میں ہندوستان کو لے کر ایک ناامیدی کا جذبہ ہے کیونکہ ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ ہندوستان نے ان کے ایجنڈے کو پوری طرح فراموش کر دیا ہے اور آئینی تبدیلی کے ایشو پر وہ کاٹھمنڈو پر دباؤ نہیں بنا رہے ہیں۔ مُنی نے دہرایا کہ ’’انھوں نے انتخابی عمل کی تعریف کی، نئی مستحکم حکومت کے بارے میں بات کی، لیکن آئین کے سوال کو نہیں اٹھایا۔‘‘
مُنی آگے کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی نیپال میں ’ہند مخالف جذبہ‘ کا سامنا کرنے یا اس سے نمٹنے میں ناکام رہے جو پہاڑوں میں بسے لوگوں میں کافی زیادہ ہے۔ اس کی جڑیں 2015 میں ہندوستان کے ذریعہ نیپال کی اقتصادی ناکہ بندی میں ہیں جو اس نے آئینی دستاویز میں نیپالی لوگوں کے مطالبات کو شامل کرانے کے لیے کیا تھا۔
ہندوستان کے ساتھ ثقافتی اورمذہبی انسلاک رکھنے والے مدھیشی لوگوں کے تئیں ہمدردی سرحد کے اس پار بھی بڑھ رہی تھی۔ ہندوستان میں نیپال کی سرحد سے ملحق دربھنگہ کے معطل بی جے پی ممبر پارلیمنٹ کیرتی آزاد نے گزشتہ ہفتہ وزیر اعظم مودی سے یہ اپیل کی تھی کہ وہ نیپال کے ساتھ کی گئی 200 سال پرانی دوستی توڑ لیں جس کی بنیاد پر نیپال کو مدھیشی آبادی والے علاقوں پر کنٹرول ملا ہوا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز