نئی دہلی: دہلی اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد بی جے پی صدمے میں ہے اور اندر خانہ دہلی بی جے پی میں قیادت کے تئیں عدم اطمینان پیدا ہو رہا ہے۔ بڑے اور چھوٹے بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے ریاستی قیادت کو خط لکھ کر پارٹی کے کام کاج اور اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی حکمت عملی پر سوال اٹھا دئے ہیں۔
Published: 21 Feb 2020, 6:45 PM IST
دریں اثنا، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) بھی بی جے پی کی شکست پر ماتم کناں ہے اور قیادت پر سوال اٹھائے ہیں۔ سنگھ نے امیدواروں کے انتخاب پر سوال اٹھاتے ہوئے مزید کہا ہے کہ تنظیم زمینی سطح پر کمزور ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے پارٹی کی انتخابی حالت خراب ہوگئی۔ شکست کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہوئے، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو سخت نصیحت بھی دی ہے۔
Published: 21 Feb 2020, 6:45 PM IST
سنگھ کی ترجمان انگریزی میگزین نے لکھا ہے کہ کوئی غلط امیدوار صرف یہ کہہ کر فرار نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ ایک اچھی پارٹی سے ہے۔ نیز ہر مرتبہ مودی اور شاہ ہر مدد نہیں کر سکتے ہیں۔
مضمون میں کہا گیا ہے کہ 2015 کے بعد دہلی میں بی جے پی کے زمینی ڈھانچے کی بحالی اور انتخاب کے آخری مرحلے میں انتخابی مہم کو عروج پر لے جانے میں ناکامی، شکست کی ایک بڑی وجہ بنی۔ نریندر مودی اور امت شاہ ہمیشہ اسمبلی سطح کے انتخابات میں مدد نہیں کر سکتے اور دہلی میں تنظیم کو از سر نو کھڑا کرنے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
Published: 21 Feb 2020, 6:45 PM IST
’آرگنائزر‘ کے ایڈیٹر پرفول کیتکر نے لکھا، ’’دہلی جیسے بڑے شہر میں رائے دہندگان کے طرز عمل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی کے ذریعہ اٹھایا گیا شاہین باغ کا ایشو ناکام ہوگیا کیوں کہ اروند کیجریوال نے اس پر اپنا رُخ واضح کر دیا۔
علاوہ ازیں، کیتکر نے بی جے پی کو کیجریوال کے نئے ’بھگوا اوتار‘ کے حوالہ سے بھی متنبہ کیا اور کہا کہ اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے لکھا، ’’مسلم قدامت پسندوں سی اے اے کے نام پر کھڑا کیا گیا جن کیجریوال کی نئی تجربہ گاہ ثابت ہو سکتا ہے۔ کیجریوال کا اس خطرہ پر کیا رد عمل ہے؟ ہنومان چالیسا کا ان کا پاٹھ کہاں تک اصل ہے؟‘‘
Published: 21 Feb 2020, 6:45 PM IST
غور طلب ہے کہ پارٹی کے بہت سے رہنماؤں کی رائے بھی سنگھ ان خیال سے مماثلت رکھتی ہے۔ ایک رہنما نے تو انتخابی مہم کے دوران ہی کہہ دیا تھا کہ دہلی کے بی جے پی کارکنان انتخابات کے دوران زیادہ پرجوش نظر نہیں آئے اور اگر باہر سے کارکنان کی فوج نہیں بلائی جاتی تو نتیجہ اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہوتا۔
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک رہنما نے کہا کہ اقتدار میں نہ آنے کا امکان تو تھا لیکن ہار اتنی بری ہوگی اس ذرہ برابر بھی احساس نہیں تھا!
Published: 21 Feb 2020, 6:45 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 21 Feb 2020, 6:45 PM IST
تصویر: پریس ریلیز