نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز عبادت گاہوں سے متعلق قانون (پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991) کو چیلنج کرنے والی نئی عرضیوں کو مسترد کر دیا۔ تاہم، جسٹس ڈی وائی چندرچوڈ کی سربراہی والی بنچ نے پہلے سے چل رہے معاملہ میں 6 نئے عرضی گزاروں کو مداخلت کی درخواست داخل کرنے کی اجازت دے دی۔ انگریزی روزنامہ ’دی ہندو‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق جن معاملوں میں درخواست دائر کرنے کی اجازت دی ہے ان میں عدالت عظمیٰ گزشتہ سال حکومت سے جواب طلب کر چکی ہے۔
Published: undefined
سپریم کورٹ نے مارچ 2021 میں 1991 کے پلیسز آف ورشپ (اسپیشل پرویزن) ایکٹ کی مختلف دفعات کے خلاف ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے کی طرف سے دائر کردہ عرضی پر داخلہ، قانون اور ثقافت کی مرکزی وزارتوں کو باضابطہ نوٹس جاری کیا تھا۔ 1991 کا ایکٹ یہ حکم دیتا ہے کہ مذہبی عبادت گاہوں کی 15 اگست 1947 والی شناخت کو تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے۔
Published: undefined
تاہم، اشونی اپادھیائے نے دلیل دی تھی کہ عبادت گاہوں کی شناخت برقرار رکھنے کے لئے جس تاریخ کی حد مقرر کی گئی وہ منمانی اور غیر معقول ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس قانون نے ایک سابقہ تاریخ (15 اگست 1947) مقرر کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر ہندوؤں، جینوں، بودھو اور سکھوں کو اپنی ان عبادت گاہوں پر دوبارہ دعویٰ کرنے کے لیے عدالتوں سے رجوع کرنے کا راستہ بند کر دیا، جن پر بنیاد پرست وحشی حملہ آوروں نے حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔‘‘
Published: undefined
اس کے علاوہ ایک دوسری عرضی انیل کبوترا کی جانب سے دائر کی گئی ہے اور اس میں بھی کم و بیش وہی سوال اٹھائے گئے ہیں جو اشونی پادھیائے کی عرضی میں ہیں۔ عرضی گزار کا کہنا ہے کہ مسجد کی تعمیر اسی زمین پر ہو سکتی ہے جو قانونی ملکیت ہو اور اس پر کسی طرح کا تنازعہ نہ ہو۔ مندر کا مذہبی کردار چھت، دیوار، ستون کو منہدم کرنے، یہاں تک کہ نماز ادا کرنے سے بھی تبدیل نہیں ہوتا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز