پلیسز آف وَرشپ ایکٹ سے متعلق 2020 میں ایک عرضی داخل کی گئی تھی، جس پر سپریم کورٹ نے 12 مارچ 2021 کو نوٹس جاری کر مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔ لیکن اب تک مرکز کی طرف سے کوئی جواب داخل نہیں کیا گیا ہے۔ رواں سال 9 ستمبر کو عدالت عظمیٰ نے مرکز سے 2 ہفتے میں جواب داخل کرنے کو کہا تھا، لیکن حکومت کی طرف سے پیش سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے ایک بار پھر وقت دینے کی گزارش کی۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت والی بنچ نے اسے منظور کر لیا۔ اب آج ایک بار پھر جب اس معاملے میں سماعت ہوئی تو مرکز نے سپریم کورٹ سے مزید وقت کا مطالبہ کیا۔ اب عدالت نے حکومت کو 12 دسمبر تک جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ساتھ ہی کہا کہ اس معاملہ میں آئندہ سماعت جنوری کے پہلے ہفتہ میں ہوگی۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ 1991 کا پلیسز آف وَرشپ ایکٹ سبھی مذہبی مقامات کی حالت 15 اگست 1947 والی برقرار رکھنے کی بات کہتا ہے۔ اسے چیلنج دینے والی کئی عرضیاں سپریم کورٹ میں داخل ہوئی ہیں۔ ان عرضیوں میں اس قانون کو بنیادی اور آئینی حقوق کے خلاف بتایا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ قانون ہندو، جین، سکھ اور بودھ طبقہ کو اپنا حق مانگنے سے محروم کرتا ہے۔
Published: undefined
سپریم کورٹ میں وکیل اشونی اپادھیائے اور بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی کے علاوہ وشو بھدر پجاری پروہت سنگھ جیسے کئی عرضی دہندگان نے پلیسز آف وَرشپ ایکٹ کو غلط ٹھہرایا ہے۔ حالانکہ آج ہوئی سماعت میں سبرامنیم سوامی نے باقی عرضی دہندگان سے کچھ مختلف بات کہی۔ سوامی نے کہا کہ ’’میں پورے قانون کو چیلنج نہیں دے رہا۔ میرا مطالبہ صرف یہ ہے کہ جس طرح اس قانون میں ایودھیا معاملے کو مستثنیٰ رکھا گیا تھا، یہی چھوٹ 2 مزید مذہبی مقامات (کاشی اور متھرا) کو دے دی جائے۔‘‘ سوامی سبرامنیم نے کہا کہ ان کی عرضی پر الگ سے سماعت ہونی چاہیے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ سماعت میں ان کے اس مطالبہ پر غور کیا جائے گا۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ جمعیۃ علماء ہند بھی اس معاملے میں سپریم کورٹ پہنچا ہے۔ جمعیۃ کا کہنا ہے کہ ایودھیا تنازعہ کے فیصلے میں سپریم کورٹ واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ باقی معاملوں میں پلیسز آف وَرشپ ایکٹ پر عمل ہوگا۔ اس لیے اب اس قانون کو چیلنج دینے والی عرضیوں پر سماعت نہیں ہونی چاہیے۔ اس طرح کی سماعت سے مسلم طبقہ میں خوف اور عدم تحفظ کا ماحول بنے گا۔ عدالت نے آج کہا کہ حکومت کا حلف نامہ داخل ہونے کے بعد جمعیۃ سمیت سبھی فریقین اس پر اپنا جواب داخل کر سکتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز