قومی خبریں

مجسمہ توڑنے والے بے وقوف، پیریار کوئی مجسمہ نہیں ایک نظریہ

شدت پسندوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مجسمے تو نظریے کی علامت ہوتی ہیں اور نظریوں کو فروغ دینے والے لوگ جب تک زندہ ہیں مجسموں کو توڑنے سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا پیریار کے مجسمے کی فائل فوٹو

تریپورہ میں لینن کا مجسمہ توڑا گیا اور تمل ناڈو کے ویلور میں پیریا کا مجسمہ منہدم کیا گیا۔ یہ کن کے مجسمے ہیں جنھیں توڑا جا رہا ہے؟ یہ کون لوگ ہیں جن سے ان کے دشمن ان کی موت کے پچاس یا سو سال بعد بھی گھبرائے ہوئے ہیں؟ ان کے زندہ نظریات میں ایسی کون سی چیز ہے جو ابھی بھی ان کے مخالفین کو ایک خطرے کی طرح دکھائی دیتی ہیں؟ ان مجسموں کو توڑنے والے کیا یہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے نظریات کی موت نہیں ہوتی۔ یہ مجسمے تو نظریات کی علامت ہوتی ہیں اور ان نظریات کو آگے بڑھانے والے لوگ جب تک اس زمین پر رہیں گے اس وقت تک اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں پیریار اور ان کے نظریات کو جاننا دلچسپ ہو سکتا ہے۔

17 دسمبر 1879 کو تمل ناڈو کے ایروڈ میں پیدا ہوئے پیریار کی تقریباً پوری جوانی مذہب سے متعلق اندھی تقلید، ذات پات نظام اور سماجی برائیوں کے خلاف لڑتے ہوئے گزری۔ پیریار تو ان کا اصل نام بھی نہیں تھا۔ ان کے چاہنے والے انھیں پیار سے اس نام سے پکارتے تھے۔ اس لفظ کا معنی ’پاک روح‘ ہوتا ہے۔ 1904 میں اپنے بنارس سفر کے بعد ملحد بننے والے ای وی راماسوامی نایکر ذات پات کے نظام سے بہت نالاں تھے۔ یہ غصہ اس قدر تھا کہ انھوں نے 1929 میں اپنے نام سے ’نایکر‘ ہٹا دیا۔

تمل ناڈو میں گزشتہ 50 سالوں سے بھی زیادہ مدت سے دراوڑ پارٹیوں کی بالادستی قائم ہے اور ملک کی کوئی بھی سیاسی طاقت ریاست میں دراوڑ نظریہ کے خلاف جا کر آگے بڑھنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ اس دراوڑ نظریہ کی بنیاد کو کھڑا کرنے میں پیریار کا تعاون رہا ہے۔ تمل راشٹرواد کے حامی رہے پیریار نے 1925 میں دراوڑ تحریک کی شروعات کی تھی۔ لیکن ایک نظریہ ساز، سیاسی لیڈر اور سماجی کارکن کے طور پر پیریار کا کردار بہت وسیع ہے۔ 1919 سے 1925 کے دوران پیریار انڈین نیشنل کانگریس کا حصہ رہے اور کچھ مدت کے لیے مدراس پریسیڈنسی کانگریس کمیٹی کے سربراہ بھی رہے۔ اس دوران انھوں نے تحریک عدم تعاون میں شرکت بھی کی اور جیل بھی گئے۔

1939 میں وہ جسٹس پارٹی کے صدر بنے۔ 1944 میں جسٹس پارٹی کا ہی نام بدل کر دراوڑ کژگم کر دیا گیا۔ لیکن 1949 میں پارٹی کے مقبول لیڈر انادورائی کے ساتھ پیریار کی نااتفاقی ہو گئی اور اس کے سبب پارٹی میں تقسیم ہو گیا جس کے بعد انادورائی نے ڈی ایم کے (دراوڑ منیتر کژگم) بنائی۔

ایشیا کے سقراط کی شکل میں مشہور پیریار نظریات سے انقلابی اور دلائل کے پختہ تھے۔ وہ ایک مذہبی ہندو فیملی میں پیدا ہوئے لیکن تازندگی برہمن واد کے مخالف رہے۔ انھوں نے برہمن وادی گرنتھوں کو جلانے کے ساتھ ساتھ راون کو اپنا ہیرو بھی مانا۔

1925 میں انھوں نے ’کڈیاراسو‘ (ریپبلک) نامی ایک اخبار تمل میں نکالنا شروع کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھیں جس میں ’سچی رامائن‘ بھی شامل ہے۔ وہ کم عمری کی شادی، دیوداسی رسم اور ہندوؤں میں نظامِ ذات کے خلاف تھے۔ عورتوں اور دلتوں کو استحصال سے آزادی دلانے کے لیے ہمیشہ جدوجہد میں لگے رہے۔

24 دسمبر 1973 کو پیریار کا انتقال ہو گیا۔ لیکن اپنے وقت اور اس کے بعد کے وقت کو پیریار نے کئی سطحوں پر متاثر کیا ہے۔ ان کی زبان میں موجود تلخی اور طنز سے متعلق دو الگ الگ طرح کی رائے ہے۔ کچھ لوگ اسے اُکساوے کی کارروائی تصور کرتے ہیں تو کچھ اسے نظریاتی مضبوطی مانتے ہیں۔ حقیقت چاہے جو بھی ہو لیکن اپنے انتقال کے 45 سال بعد بھی پیریار اپنے مخالفین اور ہندوتوا طاقتوں کے لیے ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ پیریار کے نظریات میں یقین رکھنے والوں کی تعداد جنوبی ہند کی سیاست میں فی الحال ناقابل شکست ہی معلوم ہوتی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined