پون جیسوال نہیں رہے۔ پون جیسوال وہ آزاد صحافی تھے جنھوں نے 2019 میں اتر پردیش کے مرزا پور میں وہ اسٹوری بریک کی تھی جس میں اسکولی بچوں کو مڈ ڈے میل کے نام پر نمک-روٹی دی جا رہی تھی۔ ضلع کے سیور پرائمری اسکول کی یہ اسٹوری ملک بھر میں موضوع بحث بنی تھی۔ پون جیسوال نے اس پورے معاملے کی ویڈیو بھی بنائی تھی جو وائرل ہوئی تھی۔ اس خبر کے سامنے آنے کے بعد اسکول کے ہیڈ ماسٹر اور نیائے پنچایت رکن کو معطل کر دیا گیا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی پون کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی۔
Published: undefined
یہ ایف آئی آر مرزا پور کے جمال پور بلاک کے ایجوکیشن افسر کی شکایت پر درج کی گئی تھی۔ ایف آئی آ ر وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے حکم پر اس معاملے کی جانچ کر رہے مرزا پور کے ضلع مجسٹریٹ کی رپورٹ کے بعد درج کرائی گئی تھی۔ پون جیسوال پر دفعہ 120 بی (مجرمانہ سازش تیار کرنے)، 186 (سرکاری کام میں رخنہ ڈالنے) اور 420 (دھوکہ دہی) کی دفعات لگائی گئی تھیں۔ اس معاملے میں گاؤں کے پردھان کے نمائندہ راج کمار پال کو گرفتار کیا گیا تھا۔ راج کمار نے ہی پون جیسوال کو اسکول میں مڈ ڈے میل کے نام پر نمک روٹی دیے جانے کی اطلاع دی تھی۔ راج کمار کو ضلع انتظامیہ کو بدنام کرنے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔
Published: undefined
جیسوال کے خلاف ایف آئی آر پر ایڈیٹرس گلڈ نے ایک بیان جاری کر اتر پردیش حکومت سے مقدمہ واپس لینے کی اپیل کی تھی۔ گلڈ نے کہا تھا کہ جس صحافی نے انتظامات کی خامیوں کو ظاہر کیا، اسی کو قصوروار ٹھہرانا حیرت کی بات ہے۔ بعد میں پون جیسوال کو پورے معاملے میں کلین چٹ مل گئی تھی۔
Published: undefined
بہرحال، کینسر کے مرض میں مبتلا پون جیسوال کا طویل علالت کے بعد وارانسی میں انتقال ہو گیا۔ ان کی موت پر ملک بھر کے صحافیوں نے نم آنکھوں کے ساتھ خراج عقیدت پیش کیا۔ صحافی پرشانت کمار نے لکھا ہے ’’مرزا پور کے بہادر صحافی پون جیسوال زندگی کی جنگ ہار گئے۔ انھوں نے ضلع انتظامیہ کی وہ قلعی کھولی تھی جس میں اسکولی بچوں کو مڈ ڈے میل کے نام پر نمک-روٹی دی جا رہی تھی۔ ان پر اس معاملے میں مقدمہ درج ہوا تھا، لیکن وہ کیس جیت گئے تھے۔ لیکن کینسر کے سامنے وہ زندگی کی جنگ ہار گئے۔‘‘
Published: undefined
ایک دیگر صحافی پیوش رائے نے لکھا کہ ’’نمک-روٹی کی خبر بریک کرنے والے پون جیسوال دنیا میں نہیں رہے۔ انھیں ضلع انتظامیہ نے بے طرح پریشان کیا، لیکن آخر انھیں کلین چٹ مل گئی تھی۔ وہ کینسر سے جنگ ہار گئے۔ الوداع میرے دوست، تم ہمیشہ یاد آؤ گے...۔‘‘
Published: undefined
کئی دیگر صحافیوں نے بھی پون جیسوال کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انھوں نے پون کی کارگزاریوں کو یاد کیا۔ عام آدمی پارٹی کے راجیہ سبھا رکن سنجے سنگھ نے بھی انھیں خراج عقیدت پیش کیا اور لکھا کہ ’’اسکول میں بچوں کو نمک روٹی ملنے کی خبر شائع کر قومی سطح پر اپنی بہادرانہ صحافت کے لیے مشہور پون جیسوال جی کا کینسر کی طویل بیماری کے بعد آج انتقال ہو گیا۔ ایشور ان کی روح کو سکون بخشے اور ان کے اہل خانہ کو تکلیف برداشت کرنے کی طاقت دے۔‘‘
Published: undefined
دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ اور صحافی منیش سسودیا نے بھی پون جیسوال کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ پون نے آج کے دور میں صحافت کی بہترین مثال پیش کی تھی۔ پون جیسوال مرزا پور ضلع کے اہرورا قصبہ کے رہنے والے تھے۔ انھوں نے صحافت کا کوئی کورس نہیں کیا، لیکن صرف جوش اور جستجو کے سبب انھوں نے اس شعبہ کو اپنا پیشہ بنا لیا۔ انھوں نے سرخیوں میں آنے کے بعد ’دی وائر‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ تجسس کے سبب کچھ قریبی صحافیوں کے ساتھ خبروں کو کور کرنے چلے جایا کرتے تھے اور اس طرح دھیرے دھیرے اسے اپنا پیشہ بنا لیا۔
Published: undefined
پون نے گھر چلانے کے لیے بینک سے تقریباً 2 لاکھ روپے کا قرض لے کر ایک موبائل ریپیئر شاپ کھولی تھی۔ حالانکہ وہ ’جن سندیش ٹائمز‘ نامی اخبار کے ساتھ بھی جڑے ہوئے تھے۔ وہ دہلی کے کئی میڈیا اداروں کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ ضرورت پڑنے پر ویڈیو وغیرہ بنا کر بھی بھیج دیا کرتے تھے۔ وہ کئی بار صرف پٹرول کے پیسے ملنے پر ہی نیوز چینلوں کو ضروری جانکاریاں اور ویڈیوز وغیرہ بھیج دیتے تھے۔
جب مڈ ڈے میل میں روٹی-نمک کی خبر سرخیاں بنی تھیں تو اس کے بعد پون پر کارروائی ہوئی تھی، اور انھوں نے کہا تھا کہ ’’حکومت کی منشا کے خلاف میں نے بدعنوان افسران کی قلعی کھول کر کیا کوئی گناہ کر دیا ہے۔‘‘
پون کے پسماندگان میں ان کی چھ بہنیں اور پانچ بھائی ہیں۔ ان کے والد اسٹیشنری کی دکان چلاتے ہیں۔
الوداع پون جیسوال!
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined