بہار کی راجدھانی پٹنہ کے جے ڈی ویمنس کالج میں طالبات کے برقع پہننے پر روک لگانے کے بعد زبردست ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔ اس ہنگامے کو دیکھتے ہوئے کالج انتظامیہ نے فیصلہ واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ کالج انتظامیہ نے یو ٹرن لیتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ لڑکیاں اپنی خواہش کے مطابق کالج برقع پہن کر بھی آ سکتی ہیں۔ اس سے قبل کالج انتظامیہ نے نیا قانون نافذ کرتے ہوئے مسلم طالبات سے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ وہ برقع پہن کر نہ آئیں کیونکہ وہ سبھی طالبات میں یکسانیت دیکھنا چاہتی ہے۔
Published: undefined
بہر حال، فیصلہ واپس لیے جانے کے بعد مسلم طالبات نے راحت کی سانس لی ہے اور اب وہ برقع پہن کر کالج جا سکیں گی۔ اگر یہ فیصلہ واپس نہیں لیا جاتا تو برقع پہننے والی طابات کو 250 روپے جرمانہ عائد کرنے کی بات کالج انتظامیہ نے کہی تھی۔ کالج انتظامیہ نے کہا تھا کہ ہفتہ (سنیچر) کو چھوڑ کر باقی سبھی دن طالبات یکساں ڈریس کوڈ میں ہی کالج آئیں۔
Published: undefined
کالج انتظامیہ کے ذریعہ برقع پر پابندی لگائے جانے کی خبر پھیلتے ہی مسلم طبقہ میں کافی ناراضگی دیکھنے کو ملی تھی۔ طالبات نے خود بھی اس سرکلر پر سخت اعتراض ظاہر کیا تھا اور سوال اٹھایا تھا کہ کالج کو برقع سے آخر پریشانی کیا ہے۔ اب جب کہ قانون واپس لے لیا گیا ہے تو طالبات میں خوشی کا ماحول ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کالج انتظامیہ نے ان کے اوپر جان بوجھ کر یہ قانون تھوپنے کی کوشش کی تھی۔
Published: undefined
برقع پر پابندی والی بات جب میڈیا میں آئی تو کچھ لوگوں نے کالج انتظامیہ سے اس سلسلے میں سوال کیا تھا جس پر کالج پرنسپل شیاما رائے نے صفائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ "ہم نے اس ضابطہ کے بارے میں پہلے ہی اعلان کر دیا تھا۔ نئے سیشن کے اورینٹیشن کے وقت بھی طالبات کو اس شرط کے بارے میں مطلع کیا گیا تھا۔" پرنسپل کا کہنا تھا کہ ایسا اس لیے کیا گیا تھا تاکہ طالبات ظاہری طور پر برابر نظر آئیں۔
Published: undefined
مسلم مذہبی پیشواؤں نے بھی کالج انتظامیہ کے فیصلے پر اعتراض ظاہر کیا تھا۔ امارت شرعیہ کے کارگزار ناظم مولانا شبلی القاسمی نے کہا تھا کہ اس معاملے کی تفتیش کی جائے گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر پابندی لگی ہے تو ہم اس کی مخالفت کریں گے۔ مسلم مذہبی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ جے ڈی ویمنس کالج انتظامیہ کا یہ قدم غلط ہے۔ اس سے پرنسپل کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔ مذہبی رہنماؤں نے یہ بھی الزام عائد کیا تھا کہ اس قانون کے ذریعہ ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ سماج کو توڑنے والا قدم ہے۔
Published: undefined
دوسری طرف ورلڈ انسٹی ٹیوٹ اآف اسلامک اسٹڈی فور ڈائیلاگ کی ڈی جی ڈاکٹر زینت شوکت علی نے کہا کہ کالج اگر کسی کے خصوصی لباس پر روک لگاتا ہے تو یہ اس شخص کے جمہوری حقوق کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام میں خواتین کو باعزت طریقے سے کپڑے پہننے کو کہا گیا ہے اور اس پر طالبات عمل کرتی ہیں تو کسی کو اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز