مرکزی وزیر خارجہ سشما سوراج کی ابوظبی میں او آئی سی تقریب میں شرکت ملک کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے، لیکن بطور ’گارڈ آف آنر‘ او آئی سی تقریب میں ان کا شامل ہونا پاکستان کی ایک بہت بڑی سفارتی شکست بھی ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ او آئی سی 57 مسلم ممالک پر مبنی ایک ایسی تنظیم ہے جن کے اراکین ممالک میں سے ایک پاکستان بھی ہے۔ اس کی ہمیشہ کوشش یہی رہی کہ ہندوستانی نمائندہ او آئی سی تقریب میں شامل نہ ہو، لیکن اس کی یہ کوشش اس بار ناکام ثابت ہو گئی۔ اس بات کی پاکستان کو اس قدر تکلیف پہنچی کہ اس نے پروگرام کا ہی بائیکاٹ کر دیا۔
پاکستان کی مایوسی کا اندازہ اس کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اس بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو انھوں نے جمعہ کے روز اپنے پارلیمنٹ میں دیا۔ انھوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے پاکستانی پارلیمنٹ کو بتایا کہ کس طرح انھوں نے یو اے ای کے کراؤن پرنس کو سمجھانے کی کوشش کی اور ان کے والد کے ساتھ پاکستان کے رشتوں کا واسطہ دے کر ہندوستان کا دعوت نامہ کینسل کرنے کے لیے کہا، لیکن وہ تیار نہیں ہوئے۔ شاہ محمود قریشی نے او آئی سی پروگرام کے بائیکاٹ کا اعلان کرنے سے پہلے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے جمعرات کی شب تک کراؤن پرنس کو منانے کی کوشش کی لیکن ان کی کوئی بات نہیں سنی گئی۔ پاکستان کے ایک رکن پارلیمنٹ کا یہ بیان بھی قابل غور ہے کہ ’’او آئی سی کا بانی رکن ہونے اور اس کے لیے لڑائی لڑنے کے باوجود اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جا رہا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ پاکستان نے ہر طرح سے ہندوستان کا دعوت نامہ کینسل کرانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوا۔ اس ناکامی کے نتیجہ میں ہی اس نے تقریب سے خود کو الگ رکھنے کا فیصلہ کیا۔
Published: undefined
دراصل ہندوستان او آئی سی کے لیے کافی اہمیت کا حامل ہے اور ایسا اس لیے کیونکہ او آئی سی ممالک، خصوصاً مغربی ایشیائی ممالک کے ساتھ ہندوستان کے رشتےبہت خوشگوار ہیں۔ یو اے ای کے ساتھ گزشتہ کچھ سالوں میں ہندوستان کے رشتوں میں مزید مضبوطی آئی ہے اور قطر نے 2002 میں پہلی بار ہندوستان کو آبزرور کا درجہ دینے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ علاوہ ازیں ترکی اور بنگلہ دیش تو ہندوستان کو او آئی سی کا رکن بنائے جانے کی خواہش ظاہر کر چکی ہے۔ چونکہ اس بار دعوت نامہ یو اے ای نے بھیجا تھا اور وہاں کی آبادی میں ایک تہائی ہندوستانی موجود ہیں، تو اسے کینسل کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سعودی عرب، یو اے ای، قطر ہو یا پھر ترکی و بنگلہ دیش وغیرہ، ان سب کے ساتھ ہندوستان کے سفارتی تعلقات تو ہیں ہی، ان ممالک میں سرمایہ کاری بھی بہت زیادہ ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ کوئی بھی ملک ہندوستان کو ’نظر انداز‘ کرنے کی کوشش نہیں کرتا، اور ایسا ہی ہوا۔ یو اے ای نے تو ہندوستان میں انفراسٹرکچر کے سیکٹر میں کافی سرمایہ کاری بھی کی ہوئی ہے اور اس کے علاوہ یو اے ای ہندوستان کی گزارش پر راجیو سکسینہ اور کرسچن مشیل جیسے ملزمین کی سپردگی کر کے بدعنوانی کے خلاف لڑائی میں تعاون بھی کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے لاکھ دباؤ کے باوجود سشما سوراج کا دعوت نامہ کینسل نہیں کیا گیا۔
پاکستان کے لیے یہ پوری سرگرمی ایک بہت بڑی شکست کے مترادف ہے۔ ایسا اس لیے بھی کیونکہ ایک طرف تو پاکستان ہند-پاک کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ہندوستانی وِنگ کمانڈر ابھینندن کو آزاد کر رہا ہے اور دوسری طرف عالمی طبقہ دہشت گردی کے لیے اسے ہی ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔ پاکستان نے بوکھلاہٹ میں او آئی سی تقریب کا بائیکاٹ اس لیے بھی کر دیا کیونکہ وہ اس پلیٹ فارم کا استعمال ہمیشہ ہندوستان کے خلاف ہی کرتا رہا ہے، لیکن اس بار ہندوستان کو ایک بانی ملک پر ترجیح دے دیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سشما سوراج نے تقریب میں شرکت کی اور دہشت گردی کے بہانے بغیر نام لیے پاکستان کو خوب کھری کھوٹی سنا ڈالی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ او آئی سی کا فیصلہ پاکستان کے لیے تو جھٹکا ثابت ہوا ہی، یہ درد کافی مدت تک پاکستان کو تکلیف دیتا رہے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined