ہندوستان میں بابر کی تعمیر کردہ پہلی مسجد کا نام کابلی باغ مسجد ہے، جو پانی پت کے سانولی مارگ پر واقع ہے۔ مغلیہ سلطنت کے پہلے بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر نے 1526 میں پانی پت کی جنگ میں ابراہیم لودھی کو شکست دی اور اس کے بعد 1527 میں اپنی بیوی کابلی بیگم کے نام پر اس مسجد کو تعمیر کرایا۔ پانی پت کی یہ شاندار اور تاریخی مسجد اب محکمہ آثار قدیمہ کی نگرانی میں ہے اور اب یہاں نماز نہیں پڑھی جاتی۔ مسجد کو تالا لگا دیا گیا ہے اور عام لوگوں کو مسجد کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ بابر کی تعمیر کردہ اس پہلی مسجد میں محلے کے بچے دیوار پھاند اندر آ جاتے ہیں اور کرکٹ کھیلتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں نشے کے عادی افراد بھی دیواروں کی آڑ میں اپنی زندگی تباہ کر رہے ہیں۔
Published: undefined
پانی پت کے محمد انعام چودھری بتاتے ہیں کہ کابلی باغ مسجد کی تعمیر کی کہانی پانی پت کی جنگ سے متعلق ہے۔ 1526 میں بابر اور ابراہیم لودھی کے درمیان جنگ کے دوران بابر کی بیوی کابلی بیگم کا انتقال ہو گیا۔ بابر یہ جنگ جیت چکا تھا۔ اس کے بعد بابر نے اپنی بیوی کی یاد میں یہ مسجد تعمیر کرائی۔ غورطلب ہے کہ بابر کی اہلیہ کابلی بیگم کی قبر اسی مسجد کے صحن میں موجود ہے۔
Published: undefined
مشہور نغمہ نگار اور مغلوں کی کہانی بیان کرنے والی ویب سیریز 'دی ایمپائر' کے مصنف اے ایم تراز کا کہنا ہے کہ مسماۃ کابلی بیگم بابر کی متعدد بیویوں میں سے ایک تھیں اور وہ مشکل وقت میں بابر کی مددگار ثابت ہوئی۔ وہ کابل کے بادشاہ کی بیٹی تھیں۔ کابلی بیگم نے اسے سمرقند سے آنے کے مشکل وقت کے بعد کافی ہمت دی۔ پانی پت کی لڑائی کے بعد بابر فتح یاب ہوئے لیکن کابلی بیگم کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد بابر نے کابلی بیگم کے ایصال ثواب لیے یہ مسجد تعمیر کرائی۔ کابلی بیگم کو اسی مسجد کے صحن میں دفن کیا گیا۔
Published: undefined
تاہم سوال یہ ہے کہ کابلی بیگم مسجد کو کابلی باغ مسجد کیوں کہا گیا؟ مورخ اور مقامی رہائشی انعام چودھری کا کہنا ہے کہ بابر کو باغات کا بہت شوق تھا اور ان کی تمام یادگاروں میں ایک باغ ضرور ہوتا تھا۔ یہ مسجد چاروں طرف سے باغات میں گھری ہوئی تھی اس لیے اسے کابلی باغ مسجد کہا جاتا تھا۔ تاہم اب لوگوں نے باغات کو تباہ کر دیا ہے اور ناجائز تجاوزات کر کے گھر بنا لیے ہیں۔ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے مسجد کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ انعام بتاتے ہیں، ’’یہ بہت خوبصورت مسجد ہے، جسے سمرقند کی مسجد کی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اب اس کی حالت دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
اس وقت یہ مسجد حکومت ہند کے زیر انتظام ہے، اس کی ذمہ داری محکمہ آثار قدیمہ کے ہاتھوں میں ہے اور مسجد میں نماز نہیں پڑھی جاتی۔ پانی پت کے اخلاق احمد کا کہنا ہے، ’’یہاں 1992 تک نماز پڑھی جاتی تھی، میں نے خود یہاں نماز پڑھی ہے۔ ایودھیا میں بابری مسجد کو منہدم کرنے کے بعد سیکورٹی وجوہات اور ورثے کے تحفظ کے نام پر اسے عام لوگوں کے لیے بند کر دیا گیا۔ ایک تاریخی مسجد آج انتہائی خستہ حالت میں ہے۔‘‘
اخلاق نے کہا، ’’جب حکومت تحفظ کی بات کر رہی ہے تو اس کے اندر منشیات کے عادی کیسے چھپے رہتے ہیں۔ اردگرد کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ گندے نالے ہیں۔ کم از کم دیکھ بھال تو اچھی طرح سے کی جا سکتی ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز