مرکز میں مودی کی حکمرانی آنے کے بعد جمہوری اداروں کے ساتھ ایسے حیرت انگیز کارنامے ہو رہے ہیں جن کی مثال آزاد ہندوستان کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ یہ انکشاف ہونے کے بعد کہ مرکزی حکومت نے رافیل قیمتوں پر سپریم کورٹ کو گمراہ کیا ہے، پارلیمنٹ کی پی اے سی اٹارنی جنرل اور سی اے جی کو طلب کر سکتی ہے۔
پی اے سی کے اس قدم سے معاملہ میں نیا موڑ آگیا ہے۔ سپریم کورٹ کے جمعہ کو آئے فیصلہ پر کانگریس اور دوسری جماعتوں کے سخت احتجاج کے بعد اشارے مل رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کی پی اے سی مرکزی حکومت کے اٹارنی جنرل کے خلاف مواخذہ کی تجویز پیش کر سکتی ہے۔
پارلیمانی معاملہ کے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پی اے سی کے اس قدم سے حکومت کے ساتھ سپریم کورٹ کی بھی تناتنی بڑھ سکتی ہے اگر ایسا ہوا تو عدالت عظمی کے سربراہ جسٹس رنجن گوگوئی بھی مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔ اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے مرکز نے عدالت کے فیصلہ کے کچھ نکات میں ترمیم کی عرضی سپریم کورٹ میں دائر کر معاملہ سے پلہ جھاڑنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔
حکومت نے ہفتہ کی صبح سپریم کورٹ پہنچ کر کہا کہ اس نے بند لفافے میں جو نکات عدالت کو سونپے تھے ان کی تشریح عدالت نے اپنے حکم میں غلط کی ہے۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کو اس کا خیال اس وقت آیا جب راہل گاندھی نے جمعہ کی شام پریس کانفرنس میں مودی حکومت پر سپریم کورٹ کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کر دیا۔
اب چونکہ سپریم کورٹ کرسمس اور نئے سال کی چھٹیوں کے لئے دو ہفتوں کے لئے بند ہے ایسے میں سپریم کورٹ کے سامنے یہی راستہ ہے کہ وہ اپنے فیصلہ کو اتوار یا پیر کے روز تک ترمیم کرے یا پھر 2 جنوری تک انتظار کرے۔ حالانکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ سے ایسے بھی اشارے مل رہے ہیں کہ چیف جسٹس رنجن گوگوئی اپنی بنچ کے دونوں ججوں سے مل کر اپنے پہلے کے فیصلہ میں ترمیم کرسکتے ہیں۔
Published: undefined
حکومت پہلے ہی کانگریس صدر راہل گاندھی کے ان الزامات کی تردید کر چکی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے سپریم کورٹ میں یہ کہہ کر جھوٹ بولا ہے کہ رافیل سودے کی قیمتوں کے بارے میں سی اے جی کو معلومات دی گئی تھی۔
پارلیمانی امور کے مطابق پی اے سی کے صدر کا عہدہ حزب اختلاف کے پاس ہوتا ہے۔ اس وقت کانگریس کے سینئر رہنما ملکارجن کھڑگے پی اے سی کے صدر ہیں۔ اٹارنی جنرل کو طلب کئے جانے کے بعد پی اے سی کے تیکھے رخ کے اشارے بھی صاف ہیں۔ اس کے بعد سی اے جی (کمپیوٹر اینڈ آڈیٹر جنرل) پر بھی اس بات کا دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ 59 ہزار کروڑ کے رافیل سودے کی رپورٹ جنوری تک مودی حکومت کے آخری پارلیمانی اجلاس تک پی اے سی کو سونپ دیں۔
پی اے سی، ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے بنائی گئی وہ کمیٹی ہوتی ہے جو مرکزی حکومت کے خرچوں پر نگرانی رکھتی ہے۔ وہیں سی اے جی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ خرچوں کی گہرائی سے جانچ کر کے رپورٹ تیار کرے اور اس کے حوالہ سے پی اے سی کو ہر ممکن تعاون دے۔
اس معاملہ پر لوک سبھا کے ایک سابق جنرل سکریٹری کا کہنا ہے کہ پی اے سی چونکہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی طرز پر ایک مستقل کمیٹی ہوتی ہے ایسی صورت میں رافیل سودے کی جانچ پی اے سی نے اپنے ہاتھ میں لی تو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی ٹکراؤ عروج پر پہنچ سکتا ہے۔
دراصل رافیل معاملہ میں دائر عرضیوں کو خارج کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ کے پیرا 25 میں لکھا، ’’جہاز کی قیمت کی معلومات حالانکہ سی اے جی کے ساتھ مشترکہ کی گئی اور سی اے جی رپورٹ کی جانچ پی اے سی نے کی۔ رپورٹ کا محض تخفیف شدہ حصہ ہی پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا جوکہ عوامی ہے۔‘‘
اس معاملہ پر ہفتہ کو پی اے سی کے صدر ملکارجن کھڑگے نے کہا تھا کہ اٹارنی جنرل اور سی اے جی کو طلب کرنے کا دباؤ بنائیں گے اور ان سے پوچھیں گے کہ کب سی اے جی کی رپورٹ پیش کی گئی اور کب پی اے سی نے اس کی جانچ کی۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پارلیمنٹ میں ٹکراؤ ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن پارلیمنٹ کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ غلط بیانی کے چھینٹے کسی پارلیمانی کمیٹی اور سے اے جی تک آ گئے ہیں۔ اس سے حکومت اور اپوزیشن کے مابین پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں ٹکراؤ مزید بڑھ سکتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز