بہار انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا جا چکا ہے اور این ڈی اے نے یہاں پر واپسی کر لی ہے۔ بہار کے بعد اب ہر کسی کی نظریں مغربی بنگال پر مرکوز ہیں، جہاں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ بنگال کے انتخابات میں ابھی کافی وقت باقی ہے لیکن بہار میں مہاگٹھ بندھن کو کئی سیٹوں پر نقصان پہنچانے والے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسد الدین اویسی نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ بنگال میں بھی انتخاب لڑیں گے۔ ایسی صورت حال میں توقع کی جا رہی ہے کہ اویسی بنگال میں بھی سیکولر جماعتوں کو نقصان اور بی جے پی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
Published: undefined
بہار میں اسد الدین اویسی کی پارٹی اے آئی ایم ایم نے سیمانچل کے علاقے میں انتخاب لڑا اور تقریباً ڈیڑھ فیصد ووٹ حاصل کر کے پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ انتخابی تجزیہ کاروں کے مطابق اسدالدین اویسی کی جماعت نے براہ راست طور پر عظیم اتحاد یعنی مہاگٹھ بندھن کو نقصان پہنچایا ہے۔ خیال رہے کہ اے ایم آئی ایم نے جن پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے، ان میں سے تین نشستیں کانگریس اور آر جے ڈی کے پاس تھیں۔
Published: undefined
بہار کی کامیابی کے بعد اویسی نے اعلان کیا ہے کہ وہ بنگال میں الیکشن لڑیں گے۔ مسلسل الزامات کے جواب میں اویسی نے کہا کہ ان کی ایک سیاسی جماعت ہے اور انہیں ملک میں کہیں بھی انتخاب لڑنے کی اجازت ہے۔ اویسی نے پلٹ وار کرتے ہوئے کہا کہ آپ (کانگریس) چاہتے ہیں کہ ہم انتخابات نہ لڑیں، جبکہ آپ نے مہاراشٹرا میں شیوسینا کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی۔ میں بنگال اور یوپی سمیت ملک میں ہر جگہ سے انتخاب لڑوں گا۔
Published: undefined
اسد الدین اویسی کی پارٹی ان علاقوں میں مستقل طور پر پہنچ رہی ہے جہاں مسلم ووٹرز کی تعداد زیادہ ہے اور وہ بڑی تعداد میں ووٹ کاٹنے کے لئے کوشاں ہے۔ بنگال میں مسلم ووٹرز کا تعلق ٹی ایم سی اور کانگریس سے ہے، ایسی صورتحال میں اگر بنگال میں اویسی کا داخلہ ہوتا ہے تو یہاں بھی بی جے پی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
کانگریس کے رہنما ادھیر رنجن چودھری کا کہنا ہے کہ اویسی نے مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ کیا، بی جے پی ان کو استعمال کر رہی ہے۔ تمام سیکولر جماعتوں کو ووٹ کاٹنے والے اویسی صاحب سے دور رہنا چاہیے۔ خیال رہے کہ ادھیر رنجن چودھری خود بنگال کے مرشدآباد سے آتے ہیں جہاں مسلم ووٹرز کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
Published: undefined
خیال رہے کہ بنگال میں مسلم ووٹرز کی تعداد 27 فیصد کے لگ بھگ ہے، جو فتح اور شکست کے فرق کا تعین کرتی ہے۔ پچھلے کچھ انتخابات میں ممتا بنرجی کی پارٹی کو بڑی تعداد میں مسلم ووٹ ملے ہیں، اس کے بعد کانگریس کا نمبر ہے۔ لیکن بہار میں جس طرح سے اے آئی ایم آئی ایم نے مہاگٹھ بندھن کو نقصان پہنچایا ہے وہ تشویش ناک ہے۔ بنگال میں تین اضلاع ایسے ہیں جہاں پر مسلم ووٹرز 50 فیصد سے زیادہ ہیں جبکہ بہت سے اضلاع میں مسلمانوں کی 25 فیصد سے زیادہ آبادی موجود ہے۔
Published: undefined
صوبائی سطح پر نظر ڈالیں تو یہاں قریب 16 اضلاع ہیں جہاں دس فیصد سے زیادہ مسلمان آباد ہیں، یہاں تک کہ 12 اضلاع میں تو یہ تعداد 20 فیصد کو عبور کر چکی ہے۔ اگر نشستوں کا حساب لگائیں تو اسمبلی کی کل 294 سیٹوں میں سے 90 پر مسلم ووٹر ہی فتح اور شکست کے فرق کا فیصلہ کرتے ہیں۔
Published: undefined
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر اسد الدین اویسی بنگال میں مسلم ووٹروں کی ایک تعداد کو مائل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کا سیدھا فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہوگا۔ کیونکہ ٹی ایم سی-کانگریس کو ملنے والا مسلم ووٹ تین حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز