سری نگر: نیشنل کانفرنس کے نائب صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ دہلی نے ہماری (جموں و کشمیر کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی) حالت مضحکہ خیز بنا دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت ہماری نظر بندی پر خوش تھی اور دہلی نے انہیں علیحدگی پسندوں کے مساوی ہونے کے بطور پیش کرنے کی بھی کوششیں کی۔
Published: 28 Jul 2020, 3:58 PM IST
عمر عبداللہ نے انگریزی روزنامہ 'انڈین ایکسپریس' کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے ’’ایمانداری سے بتاؤں گا۔ کشمیریوں کی اکثریت ہماری نظربندی پر خوش تھی، وہ کہتے تھے، اچھا ہوا ان کے ساتھ اور کہتے تھے کہ فاروق عبداللہ کو ‘بھارت ماتا کی جے‘ کہنے کا اچھا صلہ ملا۔ جب تک چاہیں تب تک انہیں نظر بند رکھا جانا چاہیے، یہ آپ کو الیکشن لڑنے کا صلہ ہے۔ یہ آپ کو سال 2010 اور سال 2016 میں احتجاجوں کو دبانے کا معاوضہ ہے۔ ہم ان کو باہر نہیں دیکھنا چاہتے ہیں، وادی میں لوگ ابھی بھی ایسا ہی سوچ رہے ہیں۔‘‘
Published: 28 Jul 2020, 3:58 PM IST
شمیر میں مین اسٹریم سیاست کے مستقبل کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں عمر عبداللہ کا کہنا تھا ’’میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کشمیر میں اس وقت مین اسٹریم سیاسی جماعتیں کہاں کھڑی ہیں، اس کے لئے نئی دلی ذمہ دار ہے۔ ان جماعتوں کا کیا وجود ہے، یہ ایسے سوالات ہیں جو میں سال گزشتہ کے پانچ اگست سے خود اپنے آپ سے پوچھ رہا ہوں۔‘‘
Published: 28 Jul 2020, 3:58 PM IST
علاقائی سیاسی جماعتوں کو جموں وکشمیر اور باقی ملک کے درمیان ایک پل قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا ’’مین اسٹریم علاقائی جماعتیں جموں و کشمیر اور باقی ملک کے درمیان ایک پل کا کام انجام دیتی تھیں، ہم اس رابطے کو باقی رکھنے کے لئے اپنی زندگیاں جوکھم میں ڈالتے رہے، ہم یہاں کے جذبات کے بہاؤ کے خلاف چلتے تھے۔‘‘
Published: 28 Jul 2020, 3:58 PM IST
عمر عبداللہ نے کہا کہ کشمیر میں علیحدگی پسند عناصر کی موجودگی سے انکار کرنا بے وقوفی ہے۔ انہوں نے کہا ’’اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کشمیر میں علیحدگی پسند عناصر موجود نہیں ہیں، ایسا صرف ایک بے وقوف ہی کہہ سکتا ہے، ہم اس جذبے کے خلاف چلے، الیکشن بائیکاٹ کالوں کے خلاف ہم نے لڑائی لڑی، ہم نے لوگوں کو اس میں بھی ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے باہر لایا لیکن بعد میں اسی کو ہم پر پی ایس اے عائد کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔‘‘
Published: 28 Jul 2020, 3:58 PM IST
ڈومیسائل قانون کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ 'اب اگر ہمیں ڈومیسائل ہی دینا ہے تو ہمیں کم سے کم وہ ڈومیسائل قانون دیجیے جو ہماچل پردیش جیسے ڈومیسائل قانون جیسا طاقت ور ہو۔ میں نے ہماچل میں ہی دسویں اور بارہویں کی جماعتیں پاس کی ہیں لیکن میں وہاں کے ڈومیسائل کا حقدار نہیں ہوں جبکہ جموں و کشمیر میں اگر کسی نے دسویں اور بارہویں کے امتحانات پاس کیے ہوں تو وہ یہاں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کا حقدار بن جاتا ہے'۔
Published: 28 Jul 2020, 3:58 PM IST
دفعہ 370 کی بحالی کے مطالبے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'جب لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ دفعہ 370 کی بحالی کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے ہیں، تو میں ان سے کہتا ہوں، ارے بھائی کس سے مطالبہ کروں، جنہوں نے لیا ان سے میں امید کروں کہ وہ واپس دیں گے'۔ پانچ اگست کے فیصلوں سے ان کی سیاست پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے موصوف سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ 'میں سمجھتا ہوں کہ میرا اسمبلی انتخابات میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ اسی کا نتیجہ ہے، میں کسی پر بھی بھروسہ کرنے سے اب اجتناب کروں گا، جو ایک مایوس کن بات ہے'۔
Published: 28 Jul 2020, 3:58 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 28 Jul 2020, 3:58 PM IST