فروری 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کے تعلق سے دہلی پولس پر کئی طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اس معاملے میں کئی اپوزیشن لیڈران نے آج صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند سے ملاقات کی اور دہلی فسادات کی عدالتی جانچ کا مطالبہ کیا۔ صدر جمہوریہ سے ملاقات کرنے والوں میں سینئر کانگریس لیڈر احمد پٹیل، سی پی آئی ایم جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری، ڈی ایم کے رکن پارلیمنٹ کنی موژی، سی پی آئی جنرل سکریٹری ڈی راجہ اور آر جے ڈی رکن پارلیمنٹ منوج جھا شامل تھے جنھوں نے دہلی فسادات کی غیر جانبدارانہ اور معتبر جانچ کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ دہلی فسادات معاملہ میں حکومت کو کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1952 کے تحت جانچ کمیٹی بنانی چاہیے جس کی قیادت موجودہ یا سبکدوش جج کریں۔
Published: undefined
اپوزیشن لیڈروں نے صدر جمہوریہ سے ملاقات کے دوران انھیں جو خط پیش کیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ "دہلی فسادات کے دوران خود دہلی پولس کے کردار پر سنجیدہ سوال کھڑے ہو رہے ہیں اور اس کے علاوہ جس طرح پولس سی اے اے مخالف مظاہروں میں شامل سماجی کارکنوں اور نوجوانوں کو جھوٹے کیسز میں پھنسا کر استحصال کر رہی ہے وہ مناسب نہیں۔ انھیں دہلی فسادات کے لیے قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہے۔" خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ "تیار کردہ سازشی نظریے نے سیاسی رہنماؤں کو غلط طریقے سے پھنسانا شروع کر دیا ہے۔ رکن پارلیمنٹ سیتارام یچوری اور متعدد دانشوروں و ماہرین تعلیم کا نام اس تعلق سے سامنے آیا ہے۔ یہ ایک پریشان کرنے والا رجحان ہے جو کہ تحقیقات کے طریقے پر سوال کھڑے کرتا ہے۔"
Published: undefined
اپوزیشن لیڈران نے شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے تشدد سے جڑے کئی دستاویزی ویڈیوز کی طرف اشارہ کیا جس میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ جب ہجوم تشدد پر آمادہ ہوا تو پولس دوسری طرف دیکھ رہی تھی۔ اس سے پولس کی کارکردگی پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔
Published: undefined
رہنماؤں نے شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے تشدد میں پولس کے ملوث ہونے کے متعدد عوامی دستاویزی ویڈیوز کی طرف اشارہ کیا اور جب ہجوم تشدد میں ملوث ہوا تو دوسری طرح سے دیکھا۔ اپوزیشن لیڈروں نے یہ بھی بتایا کہ "سڑک پر پڑے زخمی جوانوں پر پولس اہلکاروں کے ظلم اور انھیں قومی ترانہ گانے پر مجبور کرتے ہوئے بار بار لاٹھیوں سے پیٹنے کی ویڈیوز سرکولیٹ ہوئیں جو کافی پریشان کرنے والی ہیں۔ ان زخمی نوجوانوں میں سے ایک فیضان بھی تھا جو زخموں کی تاب نہ لا کر کچھ دنوں بعد موت کی نیند سو گیا۔"
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طلبا لیڈر عمر خالد کو اتوار کی شب دہلی فساد میں شامل ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ اپوزیشن لیڈروں کے ذریعہ صدر جمہوریہ کو پیش کردہ خط اس گرفتاری کے بعد کافی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ عمر خالد کو یو اے پی اے کے تحت دہلی پولس نے گرفتار کیا ہے۔
Published: undefined
پولس کے ذریعہ جو 17 ہزار صفحات پر مبنی فرد جرم داخل کی گئی ہے اس میں 15 لوگوں کے نام شامل ہیں اور یہ سبھی صرف سی اے اے مخالف مظاہرین ہیں۔ پولس کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحقیقات جاری ہے اور امکان ہے کہ ان ملزمین کے خلاف ایک ضمنی فرد جرم بھی داخل کی جائے گی جن کا نام اب تک شامل نہیں ہو سکا ہے۔ لیکن، پولس نے بی جے پی لیڈر کپل مشرا کو گرفتار نہیں کیا ہے جس نے 23 فروری کو فساد پیدا ہونے سے ٹھیک پہلے دھمکی دی تھی کہ اگر مظاہرین خود نہیں ہٹتے تو وہ مظاہرین کو ہٹائیں گے۔
Published: undefined
اپوزیشن لیڈروں نے اپنے خط میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ چارج شیٹ یعنی فرد جرم میں ایسے لیڈروں کے تعلق سے حیران کن خاموشی اختیار کی گئی ہے جنھوں نے اشتعال انگیز تقریریں کیں۔ انھوں نے بتایا کہ "دسمبر 2019 سے برسراقتدار پارٹی کے کئی لیڈروں نے سی اے اے مخالف مظاہرہ میں شامل ہوئے لوگوں کے خلاف تشدد آمیز تقریریں کیں اور یہ بطور دستاویز عوام میں موجود ہیں۔ اشتعال انگیز تقریر کرنے والے ان لیڈروں میں ایک وزیر بھی شامل ہے جس نے 'گولی مارو غداروں کو' نعرہ بھی بلند کیا تھا۔ حتیٰ کہ کئی لوگوں نے ہمت کر کے بی جے پی لیڈروں کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما، ستپال سنگھ، جگدیش پردھان، نند کشور گوجر، موہن سنگھ بشٹ کے خلاف شکایت بھی درج کرائی اور الزام عائد کیا کہ انھوں نے تشدد برپا کیا یا تشدد میں شریک ہوئے، لیکن ان کے خلاف دہلی پولس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔" خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ دہلی پولس نے اپنے اہلکاروں اور بی جے پی لیڈر کے کردار پر آنکھیں موند لی ہیں، لیکن تفتیش کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے سی اے اے مخالف مظاہروں کو 'مجرم' ٹھہراتے ہوئے اسے فسادات کی وجہ کے طور پر پیش کیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined