دہلی کے پریس کلب میں قدم رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ صحافی برادری ایک کے او پر ایک گری پڑی تھی۔ کوبرا پوسٹ کوئی بڑا انکشاف کرنے والا تھا۔ اسکرین پر آیا 'آپریشن 136' اور اعلان ہوا کہ میڈیا کے بارے میں میڈیا کے ذریعہ سب سے بڑا اسٹنگ آپریشن۔ جیسے جیسے ایک ایک میڈیا ہاوس کا نام آنا شروع ہوا، صحافیوں میں بے چینی بڑھنے لگی۔
یہ بے چینی موجودہ میڈیا کا حال بیان کرنے کے لیے کافی تھی۔ کہیں نہ کہیں یہ اندیشہ ذہن میں طاری تھا، کئی صحافیوں کے ذہن میں یہ چل رہا تھا کہ کہیں ان کا ادارہ تو اس کی زد میں نہیں آنے والا ہے۔ کئی ٹی وی میڈیا اداروں کی حالت خستہ معلوم ہو رہی تھی۔ دفتر سے فون پر فون آ رہے تھے اور دھیرے دھیرے پریس کانفرنس کی میز سے ٹی وی چینلوں کے مائک کم ہونے لگے۔ سب سے پہلے ہٹے وہ چینلز جن کے بارے میں 'گودی میڈیا' جس کو وہاں موجود لوگ ’مودی میڈیا ‘ کا نام بھی دے رہے تھے۔ اس میں جو نظر آئے وہ ٹائمس ناو، ریپبلک ٹی وی، راجیہ سبھا ٹی وی وغیرہ اہم تھے۔ سناٹا اور پریشانی کا گراف دھیرے دھیرے بڑھنے لگا جب ڈی این اے، انڈیا ٹی وی وغیرہ کا کالا چٹھا سامنے لایا جانا شروع ہوا۔
کوبرا پوسٹ کے اس اسٹنگ آپریشن میں انڈیا ٹی وی، دینک جاگرن، پنجاب کیسری، ہندی خبر، سب ٹی وی، ڈی این اے، امر اجالا، یو این آئی، 9 ایکس ٹشن، سماچار پلس، ایچ این این لائیو 24، سوتنتر بھارت، اسکوپ ووپ، ریڈف ڈاٹ کام، انڈیا واچ، آج اور سادھنا پرائم نیوز کے متعلق پردہ فاش کیا گیا تھا کہ کس طرح پیسوں کے لالچ میں وہ تشدد آمیز ہندوتوا کے ایجنڈے، آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے کوریج سے لے کر مخالف پارٹیوں کو ذلیل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جب یہ اسٹنگ آپریشن چل رہا تھا تو آس پاس بیٹھے صحافی بے حد حیرانی سے پوچھ رہے تھے کہ مارکیٹنگ اور مینجمنٹ کے لوگوں کو کتنا زیادہ طاقتور بنا دیا گیا ہے، وہ ہی سارا ایڈیٹوریل فیصلہ لے رہے ہیں۔
اسٹنگ میں جو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح سے میڈیا کے یہ تمام گروپ خود کو فخر سے ہندوتوا بریگیڈ کا سپہ سالار بتاتے ہوئے سینہ چوڑا کرتے ہیں۔ سادھنا پرائم نیوز کے ڈائریکٹر آلوک بھٹ تو خود کو پیدائشی آر ایس ایس قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہندتوا کے ایجنڈے کو بہت جارحانہ طریقے سے کھیلنا ضروری ہے، "اور جو ہے ہم سے جتنا ایگریسیو کروانا ہے وہ بتائیے کیونکہ ہم تو اسی کے لیے ہیں، مطلب ہم کھلے طور پر چلنے والے آدمی ہیں۔"
اس اسٹنگ کو بھی ہندوتوا پر حملے کے طور پر دیکھنے والے صحافیوں کی جماعت کم نہیں ہے۔ شروعاتی کچھ سوال ہی اسی لائن پر تھے۔ ایک صحافی نے پوچھا کہ آخر آپ نے ہندوتوا سے متعلق سوال ہی میڈیا گھرانوں سے کیوں پوچھا، آپ باقی مذاہب کے بارے میں پوچھ سکتے تھے۔ ایک نے پوچھا کہ کیا آپ ہندوتوا کو نشانے پر لینا چاہتے تھے۔ اس کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ جس اسٹنگ میں میڈیا پیسوں کے لالچ میں کس قدر گر کر سارے قوانین و ضوابط کو طاق پر رکھ کر بھگوا ایجنڈے کے آگے فروخت ہونے کو تیار نظر آ رہی تھی، اس پر بھی جو سوال آئے وہ اسی سمت والے تھے۔
اسٹنگ کے بعد جو سوال جواب کا سیشن چلا اس میں سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے اپیل کی کہ اس طرح کے فروخت میڈیا پر نگاہ رکھنے کے لیے عوام کا ایک گروپ بنانا چاہیے اور ان کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ 'وائر' ویب سائٹ کے سدھارتھ وردراجن نے کہا کہ اطلاعات اور نشریات کے وزیر روی شنکر پرساد کوہندوستان میں ہوئے اس انکشاف پر کارروائی کرنی چاہیے۔
کوبرا پوسٹ کے انیرودھ بہل نے 'قومی آواز' کے نمائندہ کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ میڈیا کے ذریعہ کیا گیا پہلا اسٹنگ ہے جس میں میڈیا کا پردہ فاش کیا گیا ہے، ورنہ ابھی تک ہم باہر کے حالات کا جائزہ لیتے رہتے تھے۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ میڈیا میں مجرمانہ ذہنیت کے ساتھ فساد پھیلانے، نفرت پھیلانے کی ذہنیت کے ساتھ ساتھ فروخت ہونے کی اتنی بھیانک بیماری لگ گئی ہے کہ پورا میڈیا خطرے میں آ گیا ہے۔ یہ گھن بہت اندر تک بیٹھا ہوا ہے، اس کا پردہ فاش ہونا بہت ضروری ہے۔ جلد ہی ہم اس سلسلے کا دوسرا حصہ لانے والے ہیں، اس انکشاف میں بھی حیران کرنے والا عنصر موجود ہے۔
قابل ذکر ہے کہ کوبرا پوسٹ نے بدنام زمانہ رنویر سینا کی سیاسی سرپرستی پر بھی اسٹنگ کیا تھا۔ اگر کوبرا پوسٹ کا یہ خلاصہ صحیح ہے تو پھر میڈیا کی کارکردگی پر بڑے سوال کھڑے ہو گئے ہیں۔
Published: 26 Mar 2018, 11:06 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Mar 2018, 11:06 PM IST
تصویر: پریس ریلیز