ہماچل پردیش اور گجرات میں ہو رہے اسمبلی انتخاب کے پیش نظر سبھی سیاسی پارٹیوں نے عوام سے کئی طرح کے وعدے کیے ہیں۔ ریوڑی کلچر کہہ کر مفت منصوبوں کی تنقید کرنے والے پی ایم مودی اور بی جے پی نے بھی ایک بار پھر لوگوں سے کئی انتخابی وعدے کیے ہیں، جس کے بعد لوگوں نے ریوڑی کلچر کو لے کر انھیں گھیرنا شروع کر دیا ہے۔ اب بی جے پی کے سامنے یہ چیلنج ہے کہ دوسری پارٹیوں کے سامنے کس طرح سے انتخابی وعدوں کو لے کر توازن بنایا جائے۔
Published: undefined
گزشتہ دنوں ہماچل پردیش میں بی جے پی نے انتخابی منشور جاری کیا، جس میں انتخاب جیتنے کے بعد کئی طرح کی سہولیات دینے کا وعدہ کیا گیا۔ بی جے پی نے کلاس 6 سے 12ویں تک کی طالبات کے لیے سائیکل اور اعلیٰ تعلیم میں جانے والی طالبات کو اسکوٹی دیئے جانے کا وعدہ کیا۔ بی پی ایل کنبوں کی خواتین کو مفت ایل پی جی سلنڈر اور حاملہ خواتین کو 25 ہزار کی مدد دینے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ اس کے بعد لوگ مفت کے منصوبوں یا ریوڑی کلچر پر بی جے پی کو گھیرنے لگے۔ حالانکہ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے ان وعدوں کو درست ٹھہرایا اور کہا کہ یہ ریوڑی کلچر نہیں ہے۔
Published: undefined
اس معاملے میں جے پی نڈا کا کہنا ہے کہ ’’یہ مفت نہیں ہے بلکہ خواتین اور طالبات کو مضبوط بنانے کی ترکیب ہے۔‘‘ حالانکہ نجی طور پر بی جے پی اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ فلاحی منصوبوں اور مفت تحائف کے درمیان معمولی فرق ہے۔ بی جے پی کے ایک سرکردہ لیڈر نے کہا کہ ’’مفت تحفہ قرض یا بجلی بل معاف کرنا ہے، جب کہ سائیکل اور اسکوٹی لڑکیوں و خواتین کو مضبوط بنائیں گے۔‘‘
Published: undefined
ایک دیگر سینئر بی جے پی لیڈر کا کہنا ہے کہ ’’بی جے پی مفت اور فلاحی منصوبوں کو الگ طرح سے دیکھتی ہے۔ ایک غریب گھر میں بجلی پہنچانا، جہاں بجلی 75 سالوں میں نہیں پہنچی ہے، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کر رہا ہے۔ لیکن ان کا بجلی بل معاف کرنا یا انھیں مفت بجلی دینا ’فریبیز‘ ہے۔‘‘
Published: undefined
دوسری طرف کانگریس سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی چیئرپرسن سپریا شرینیت نے بی جے پی پر دو معنی بیان دینے کا الزام عائد کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ایک طرف بی جے پی اور وزیر اعظم مودی ریوڑی کی شکل میں عام لوگوں کے لیے امداد کا حوالہ دیتے ہیں اور حملہ کرتے ہیں، دوسری طرف ان کا منشور ڈھلائی سے بھرا ہوا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’بی جے پی حکومت نے گزشتہ پانچ سال میں ہماچل کی حالت خراب کر دی ہے۔ آج بی جے پی اپنے کام پر نہیں بلکہ اپنے انتخابی نشان پر ووٹ مانگتی ہے، جب کہ کانگریس جملوں پر نہیں کام پر یقین کرتی ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں بی جے پی حکومت میں بدعنوانی اور بدتر حکمرانی کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔ ان کا 2022 کا انتخابی منشور 2017 کے انتخابی منشور کو کاپی-پیسٹ کیا گیا ہے، جس میں کھوکھلے وعدے ادھورے رہ جاتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
واضح رہے کہ ہماچل پردیش میں 12 نومبر کو انتخاب ہونے والے ہیں، اور گجرات میں انتخاب دو مراحل میں ہوں گے۔ پہلا مرحلہ یکم دسمبر کو اور دوسرا مرحلہ 5 دسمبر کو ہوگا۔ دونوں ہی ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج 8 دسمبر کو برآمد ہوں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز