دہلی کے دِل میں بسا ہے چاندنی چوک۔ یہاں کی گلیاں حیرت انگیز اور تاریخی رباعیوں سے بھری پڑی ہیں۔ عام تصور ہے کہ مسلم آبادی سے بھرے اس علاقے کی لڑکیاں آج بھی دقیانوسی سوچ اور قدیم روایتوں کے بندھن میں جکڑی ہوئی ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن یہ بندشیں اب ٹوٹتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ لڑکیاں بھی لڑکوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا ذہن بنا چکی ہیں اور اسمارٹ فون نے تو ان کی دنیا ہی بدل دی ہے۔ اب پرانی دلّی کی لڑکیاں بھی دفتروں میں ملازمت کرتی ہیں اور بغیر حجاب کے چاندنی چوک کی گلیوں میں مارکیٹنگ کرتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں۔ جن لڑکیوں کو ایک دہائی پہلے تک گھر میں یہ سکھایا جاتا تھا کہ پردے میں رہو، آج وہی لڑکیاں مردوں کے ساتھ جِم یعنی ورزش خانہ میں گھنٹوں پسینے بہاتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ جی ہاں، آپ حیران ضرور ہوں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پرانی دلی کی لڑکیاں بھی اب فِٹ دِکھنا چاہتی ہیں اور جِم جا کر ورزش کرنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کرتیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پرانی دلّی کے مسلم سماج میں آج بھی اسلامی تہذیب کی روایت کوٹ کوٹ کر بھری پڑی ہے۔ مغلیہ رسم و رواج ان کی زندگی کا اہم حصہ ہے۔ یہاں کی لڑکیاں ماڈرن انداز بھلے ہی اختیار کر رہی ہوں، لیکن انھوں نے اسلامی اقدار اور تہذیب کا دامن پکڑے رکھا ہے۔
Published: 11 Nov 2018, 7:10 PM IST
بہر حال، ہم بات کر رہے ہیں لڑکیوں کے ذریعہ جِم جوائن کرنے کے بڑھتے چلن اور خود کو فِٹ رکھنے کے لیے گھنٹوں پسینہ بہائے جانے کی۔ آپ کو اس کا نظارہ پرانی دلّی کے کئی علاقوں میں مل جائے گا، لیکن فتح پوری مسجد کے پاس اس کی بہترین جھلک آپ دیکھ سکتے ہیں۔ مسجد کے بالکل سامنے تیسری منزل پر ایک بڑا سا جِم ہے۔ یہاں مسلم لڑکیاں اور خواتین کبھی بھی ورزش کرتی ہوئی نظر آ جائیں گی۔ یہاں کچھ خواتین اپنے بھائی کے ساتھ آتی ہیں تو کچھ اپنے شوہر کے ساتھ، ظاہر ہے کہ ان میں کچھ برقع پہن کر آتی ہیں اور کچھ بغیر برقع کے۔ کئی خواتین اکیلے بھی جِم میں ورزش کرنے پہنچتی ہیں۔ زیادہ تر خواتین کا مقصد اپنا وزن کم کرنا اور خود کو تندرست رکھنا ہوتا ہے۔ یہ چاندنی چوک کا مشہور جِم ہے جہاں ایک مہینے کی فیس 3500 روپے ہے۔ خواتین کے لیے حالانکہ 3500 روپے ماہانہ خرچ کرنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود جِم پوری طرح بھرا رہتا ہے۔ ایک خاتون نے بتایا کہ وہ اپنی جیب خرچ کا نصف حصہ جِم پر ہی خرچ کر دیتی ہیں۔
Published: 11 Nov 2018, 7:10 PM IST
ایک دوسرا جِم پرانی دِلّی میں کٹرا بریان فتح پوری میں ہے۔ یہاں آنے والی خواتین میں بھی زیادہ تر مسلم طبقہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ 30 سالہ رخسانہ بھی یہاں ورزش کرنے پہنچتی ہیں۔ انھیں تھائرائیڈ کا مرض ہے۔ اس مرض کی وجہ سے ان کا موٹاپا گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ رخسانہ بتاتی ہیں کہ "مجھے جِم آنے کی ہمت شادی کے بعد ہوئی۔ صحت ٹھیک رکھنے میں میرے شوہر میرا ساتھ دیتے ہیں۔ وہ بھی میری وجہ سے جِم آتے ہیں۔ اکیلے آنے کی تو میں ہمت ہی نہیں کر پائی تھی۔" وہ مزید بتاتی ہیں کہ جب وہ پہلی بار جِم آئی تھیں تو مردوں کے ساتھ ورزش کرنے میں عجیب سی جھجک محسوس ہو رہی تھی۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد سب کچھ ٹھیک لگنے لگا۔ چونکہ اس جِم میں خواتین کثیر تعداد میں ورزش کرنے آتی ہیں اس لیے یہاں خاتون جِم ایکسپرٹ بھی رکھی گئی ہیں۔ لیکن یہاں آنے والی لڑکیاں اور خواتین مردوں کے ساتھ ورزش کرنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کرتیں۔
Published: 11 Nov 2018, 7:10 PM IST
تمثیلا خان گزشتہ دو سال سے اس جِم سے منسلک ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں اور وہ بھی یہاں اپنے شوہر کے ساتھ آتی ہیں۔ تمثیلا کہتی ہیں کہ "میں موٹی نہیں ہوں لیکن میں فِٹ رہنا چاہتی ہوں۔" جِم کے تعلق سے وہ بتاتی ہیں کہ "یہاں یوگا، جمبا، سائیکلنگ، ٹباٹا، ایروبک، پاور ایب... سبھی طرح کی ورزش کرائی جاتی ہیں۔ اس جِم کو چلانے والے فرحان خان بتاتے ہیں کہ ان کی اس میں دلچسپی بہت پہلے سے تھی۔ انھوں نے شوق کو پیشے میں تبدیل کر دیا۔ فرحان کہتے ہیں کہ "عام طور پر مسلم خواتین شادی کے بعد ہی جِم آنے کی ہمت کر پاتی ہیں۔ کچھ خواتین شادی سے پہلے آتی ضرور ہیں لیکن ان کی اس میں دلچسپی تبھی زیادہ ہوتی ہے جب ان کی شادی طے ہو گئی ہو۔ دراصل شادی میں وہ خوبصورت اور فِٹ نظر آنا چاہتی ہیں۔"
Published: 11 Nov 2018, 7:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 11 Nov 2018, 7:10 PM IST