رمضان المبارک کے اس پاک مہینے میں ایسے روزہ داروں کی کمی نہیں ہے جنہوں نے اپنی زندگی کے 75 سے زیادہ برس پار کر لئے ہیں۔ ان میں متعدد روزہ دار تو ایسے ہیں جنہیں مستقل روزے رکھتے ہوئے 50 برس گزر چکے ہیں۔ یہ بزرگ روزہ رکھتے ہیں، تلاوت کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور تراویح میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔
Published: undefined
محمد ہاشم 80 سے زیادہ کے بزرگوار ہیں اور اب سیدھے کھڑے بھی نہیں ہو پاتے۔ ان کی بات سمجھنے کے لئے بھی انہیں بے حد غور سے سننا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماہ رمضان میں باقاعدگی سے روزے رکھتے ہوئے انہیں 66 سال ہو چکے ہیں۔ بقول ان کے انہوں نے اپنا پہلا روزہ 13 سال کی عمر میں رکھا تھا۔ محمد ہاشم گزشتہ دنوں بیمار بھی ہوئے اور کھیتوں میں مزدوری بھی کرنی پڑی، لیکن انہوں نے روزہ نہیں چھوڑا۔
Published: undefined
محمد ہاشم کے 7 بچے ہیں اور اب ان کے پوتوں کی بھی شادی ہو چکی ہے۔ ہاشم نماز تراویح بھی ادا کرتے ہیں، حالانکہ ضعیف ہونے کی وجہ سے وہ بیٹھ کر ہی نماز ادا کر پاتے ہیں۔ ہاشم کا کہنا ہے کہ حکم الٰہی سے دستبردار نہیں ہوا جا سکتا۔ ’’روزہ ہر مسلمان پر فرض ہے لہذا میری کوشش رہتی ہے کہ فرض میں کبھی کوتاہی نہ ہو۔‘‘
Published: undefined
نذیر احمد 40 سال کے ہیں اور چشمہ لگا کر کلامِ پاک کی تلاوت کرتے ہیں لیکن ان کی اماں کنیز فاطمہ جو کہ 78 سال کی ہیں، وہ آج بھی بغیر چشمہ تلاوت کرتی ہیں۔ ماہ رمضان میں وہ دو مرتبہ قرآن کریم مکمل کر لیتی ہیں۔ اماں کنیز کہتی ہیں کہ انہیں یہ یاد ہی نہیں کہ انہوں نے کب روزہ رکھنا شروع کیا تھا، ہاں اپنی یاد میں انہوں نے کبھی بے وجہ روزہ نہیں چھوڑا۔ یہاں تک کہ اگر بخار بھی ہو گیا تب بھی یہ روزہ رکھتی رہیں۔ کنیز کے مطابق انسان جب روزہ رکھ لیتا ہے تو بھوک اور پیاس برداشت کرنے کی ہمت اللہ دیتا ہے اور جب اللہ اتنا کچھ عطا کرتا ہے تو پھر اس کے حکم پر عمل پیرا بھی ضرور ہونا چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ نماز اور روزہ اللہ کے ایسے احکامات ہیں جن پر وہ ہمیشہ عمل کرتی ہیں۔ گزشتہ 60 سالوں سے لگاتار ماہ رمضان کے دوران روزے رکھ رہیں کنیز کہتی ہیں کہ خدا کے حکم پر عمل کرنے کے راستہ میں غریبی کبھی رخنہ نہیں ڈالتی۔
Published: undefined
محمد بابو 77 سال کے ہیں اور بہت کمزور ہو چکے ہیں۔ غریبی نے انہیں توڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس عمر میں بھی وہ محنت مزدوری سے پیچھے نہیں ہٹتے اور پکوڑیاں بیچ کر گھر کا خرچ چلاتے ہیں۔ بابو کہتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا، ان میں اتنی طاقت تھی کہ وہ آٹے سے بھری بوریاں بھی اٹھا لیا کرتے تھے لیکن اب ہمت جواب دے رہی ہے۔ ان کی شریک حیات دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں اس کے بعد سے ان کی مشکلات بڑھ گئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مرتبہ کے روزے سب سے مشکل ہیں کیونکہ ان کی بیگم اب ان کے ساتھ نہیں۔ کھانے کی دقت ہونے کے باوجود وہ روزے اور نماز کا پابندی سے اہمتام کر رہے ہیں۔ بابو کا کہنا ہے کہ ’’ہمت جواب دینے لگی ہے لیکن اللہ کے سوائے کوئی دوسرا سہارا بھی تو نہیں۔ خدا سے دعا ہے میری عبادت قبول کر لے اور مجھ سے راضی ہو جائے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز