قومی خبریں

یورپ میں برہنگی نسوانیت کی علامت ہے!... نواب علی اختر

یورپی کونسل نے حال ہی میں سماجی رابطے کی ویب گاہوں سے مسلم خواتین کے حق کے طور پر حجاب کی ترغیب پر مبنی تبلیغات کو حذف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

علامتی تصویر / Getty Images
علامتی تصویر / Getty Images Barry Lewis

امریکی صدر جو بائیڈن کی پہل پر حال ہی میں دو روزہ جمہوریت کانفرنس ایسے وقت میں ہوئی جب پوری دنیا میں جمہوریت کی صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ عالمی سطح پر شہری آزادیوں پر پابندیوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ گزشتہ دہائی کے دوران جمہوری نظام والے نصف سے زیادہ ممالک میں جمہوریت درہم برہم ہو چکی ہے۔ جن ممالک میں جمہوریت رائج ہے، وہاں مختلف اقدامات کے ذریعے لوگوں کے جمہوری حقوق سلب کیے جانے کی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔ اس سلسلے میں یورپی ممالک سب سے آگے نظر آرہے ہیں جو کسی بھی مذہبی شناخت یا روایت کو ملک اور جمہوریت مخالف قرار دے دیتے ہیں۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت کسی معاشرے یا ملک پر باہر سے مسلط نہیں کی جا سکتی، اسے اپنانے اور بچانے کی جنگ ہر معاشرے کو لڑنی پڑتی ہے۔

Published: undefined

یورپی ملک فرانس مسلم مخالف اقدامات کو ہی جمہوریت سمجھتا ہے۔ فرانسیسی سیاستدانوں اور ذرائع ابلاغ نے سنہ 2018 میں سوربن یونیورسٹی کی قومی طلبہ یونین کی سربراہ منتخب ہونے والی مراکشی نژاد مسلم طالبہ مریم بوجیتو کے خلاف بھاری تشہیری مہم کا آغاز کیا، ان پرعلیحدگی پسندی کے الزامات لگائے اور جب وہ حجاب کے ساتھ ٹیلی ویژن کے اسکرین پر ظاہر ہوئیں تو ایک طوفان بدتمیزی کا آغاز ہوا اور سیاستدانوں اور ابلاغیات کے متعلقین نے ان کے حجاب اور بھاری لباس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں ’غیر عورت‘ جیسے القاب سے نوازا اور ان کے یونیورسٹی کی قومی طلبہ تنظیم کی سربراہ کے طور پر انتخاب کو جامعات کی ہتک و توہین قرار دیا! گویا فرانس میں برہنگی نسوانیت کی علامت ہے!

Published: undefined

مریم بوجیتو کے خلاف اقدامات جاری رہے اور دو سال بعد فرانسیسی پارلیمان کے نمائندوں نے کورونا وائرس کے اثرات کے بارے میں منعقدہ نوجوانوں کے نمائندوں کی سماعت کے اجلاس میں شرکت سے اجتناب کیا، یہاں تک کہ فرانس کے داخلی امور کے وزیر جرارد کولمب نے مریم بوجیتو پر علیحدگی پسندگی تک کا الزام لگایا۔ یورپ میں گویا حکمران حجاب سے ڈرتے ہیں اور یہاں حجاب کے خلاف جنگ ایک طویل پس منظر رکھتی ہے۔ یورپی کونسل نے حال ہی میں سماجی رابطے کی ویب گاہوں میں مسلم خواتین کے حق کے طور پر حجاب کی ترغیب پر مبنی تبلیغات کو حذف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یورپی کونسل کا یہ اقدام فرانس کے اعتراض کے بعد عمل میں آیا جو یورپ میں مسلم خواتین پر دباؤ پر مبنی تازہ ترین اقدام سمجھا جاتا ہے۔

Published: undefined

رواں سال 15 جولائی کو بھی لگزمبرگ میں واقع یورپی عدالت نے ایک قرارداد جاری کردی جس کے تحت کسی بھی کام اور پیشے کے مقام پر اسلامی حجاب پہننا ممنوع قرار دیا گیا ہے اور زور دیا گیا ہے کہ یہ فیصلہ کسی طور بھی یورپ میں مسلم اقلیت کے خلاف امتیازی اقدام کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اس کے برعکس یہ سماجی تناؤ سے بچاؤ میں مدد دیتا ہے۔ عدالت نے یہ فیصلہ جرمنی میں دو مسلم خواتین کی شکایت پر سنایا جن میں سے ایک کسی میڈیکل اسٹور پر کام کر رہی تھی اور دوسری عمر رسیدہ افراد کے گھر میں مصروف کار تھی۔ ان دونوں خواتین کے آجروں نے ان سے حجاب ہٹانے کا تقاضہ کیا تھا۔ جس کے جواب میں مبینہ یورپین عدلیہ نے مانا کہ ان خواتین کے آجروں کا کام کاج کے مقام پر مصروف تمام کارکنوں میں ’مذہبی غیر جانبداری‘ کے طور پر حجاب اتارنے کا تقاضہ ضروری تھا۔

Published: undefined

نام نہاد عدالت کا فیصلہ باحجاب مسلم خواتین پر فشار بڑھانے کے سلسلے میں ایک نیا قدم تھا اور یہ قدم اس سے پہلے فرانس، جرمنی، بلجیئم، ڈنمارک اور بلغاریہ میں مسلم خواتین کے خلاف اور انہیں حجاب سے منع کرنے کے حوالے سے اٹھائے گئے ہیں۔ مسلم خواتین ان بظاہر ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں تعلیم، روزگار نیز کھیل کے حوالے سے شدید مسائل کا شکار ہیں۔ اس میں کوئی دوسری بات نہیں ہے کہ یورپی تہذیب مسلمانوں کی مرہون منت ہے اور پھر بیسویں صدی کے وسط میں بیشتر استعماری یورپی ممالک کو اپنی نوآبادیوں سے نکلنا پڑا اور برطانیہ سمیت معدودے چند لٹیروں کے سوا، چھوٹے چھوٹے سامراجی ممالک بھاری فوجی اور معاشی ناکامیوں سے دوچار ہوکر اپنے ممالک میں پلٹ آئے اور پھر دوسری عالمی جنگ نے بھی پورے یورپ کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا تھا اور کروڑوں یورپی یورپیوں کے ہاتھ ہلاک ہوچکے تھے۔

Published: undefined

یہ اپنے ممالک کی تعمیر نو کے لیے افرادی قوت کے محتاج تھے چنانچہ ہزاروں عربوں اور مسلمانوں نے بہتر مستقبل کی خاطر یورپ کا رخ کرکے ان کی ضروریات کو پورا کیا جبکہ یہ عرب اور مسلم لوگ تنہا نہیں تھے بلکہ اپنی عادات و اطوار اور دینی و مذہبی عقائد کو بھی اپنے ساتھ یورپ لے گئے تھے اور جو چیز اس حوالے سے بہت نمایاں تھی وہ حجاب تھا جو مسلم خواتین اپنے ساتھ لے گئی تھیں۔ بعد ازاں ایسے حال میں اسلامی حجاب کے خلاف جنگ یورپی اتحاد کی سرحدوں تک پھیل گئی کہ یورپ کی گلیوں اور سڑکوں میں با حجاب مسلم خواتین دکھائی جانے لگیں۔ مغربی ممالک نے اس سے پہلے مختلف اسلامی ممالک کی خواتین کا پردہ چھیننے کی کوشش کی تھی لیکن اب انہیں اپنے ممالک کے اندر حجاب کے رواج کا سامنا تھا اور وہ اسے چیلنج سمجھتے تھے جو یورپ کی ثقافت کا حصہ بن چکا تھا۔

Published: undefined

فرانس ابتداء ہی سے یورپ میں حجاب کا دشمن نمبر ایک سمجھا جاتا ہے۔ فرانسیسی اپنے قوانین پر فخر کرنے کے عادی ہیں اور ان قوانین کو فرانسیسی انقلاب کا تسلسل سمجھتے ہیں تاکہ فرانس ایسی سرزمین کی حیثیت اختیار کرے جس میں آزادی اور مساوات کی مکمل حکمرانی ہوگی لیکن فرانسیسی جن قوانین کو مقدس سمجھتے ہیں وہ دوسری طرف سے دوسروں کے خلاف امتیازی پالیسیوں اور دوسروں کی تذلیل میں بدل چکے ہیں۔ حکومت فرانس نے سنہ 2003 میں اختلافات اور تناؤ کو اسکولوں اور عمومی مقامات پر حجاب سمیت مذہبی علامتوں کے استعمال پر ممانعت کے قانون کی منظوری کا سبب گردانا کہ اس ملک میں سنہ 2002 تک کے کئی عشروں میں حجاب کے سلسلے میں مجموعی طور پر 1200 اختلافی واقعات ریکارڈ ہوئے تھے جن میں صرف پانچ واقعات ایسے تھے جن میں عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑی تھی۔

Published: undefined

فرانسیسی حکومت نے دعوی کیا ہے کہ وہ بس ’مسلم خواتین کی آزادی کی خاطر اسلام کے خلاف جنگ!‘ لڑ رہی ہے لیکن وہ اس جنگ کے ضمن میں باحجاب مسلم خواتین کو تعلیم، روزگار، کھیلوں وغیرہ میں ان کے حقوق سلب کرتی ہے یہاں تک کہ طلبہ کے تعلیمی و تفریحی کیمپوں میں انہیں اپنے بچوں کی معیت سے محروم کرتی ہے۔ یوروپین کا دعوی ہے کہ وہ عورتوں کے دفاع کی خاطر ہی حجاب کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں لیکن وہ فحش فلموں اور اشتہارت میں عورتوں کے آلاتی استعمال اور فحاشی اور جسم فروشی سمیت بعض’تجارتی!‘ مسائل پر بحث و تمحیص تک کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہزاروں تارکین وطن یورپی ممالک میں اقامتی ویزا کے حصول کے لیے کئی برسوں تک ٹھوکریں کھاتے ہیں تاکہ انہیں ان ممالک میں سفر کرنے کی اجازت اور ان ممالک کے امتیازی قوانین کی زد سے چھٹکارا ملے جو عام طور پر ان کی ملک بدری پر منتج ہوتے ہیں۔ اور اگر پناہ گزین خواتین باحجاب ہوں تو انہیں مزید صعوبتیں جھیلنا پڑتی ہیں۔

Published: undefined

ایک تحقیق کے مطابق فرانسیسی شہریت کا ادارہ مسلمان خواتین سے تفتیش اور پوچھ گچھ کے دوران ان کے لیے بہت مشکل حالات پیدا کرتا ہے۔ اس ادارے میں مسلم خواتین کے داخل ہوتے ہی ان سے کہا جاتا ہے کہ اپنا لباس ہلکا کر دیں اور حجاب اتار دیں۔ اگر ادارہ ان کی درخواست منظور کرے تو یہ ان عورتوں کے لئے ایک مثبت علامت ہے لیکن اگر ان کی درخواست مسترد ہوجائے تو ان کے ریکارڈ میں ایک منفی علامت ثبت کی جاتی ہے لیکن یہ مسئلے یہیں پر ختم نہیں ہوتا۔ اگردرخواست گذار مسلم خاتون ادارے کی ہدایت مان لے اور حجاب اتار دے تو پھر ادارے کے مرد کارکنوں کو متعلقہ بیٹھک میں آنے کی دعوت دی جاتی ہے تاکہ مسلم خاتون کے رد عمل کو پرکھا جاسکے! اور مسلم خاتون کے کسی بھی قسم کے منفی رد عمل کو ’فرانسیسی معاشرے میں گھل ملنے کی طرف عدم رغبت‘ کی ایک سطح کے طور پر ثبت کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined