قومی خبریں

اجیت ڈووال کے بیٹے شوریہ کا ’انڈیا فاﺅنڈیشن‘ سوالوں کے گھیرے میں

اجیت ڈووال کے بیٹے شوریہ کا ’انڈیا فاﺅنڈیشن‘ سوالوں کے گھیرے میں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ نے ایک انکشاف کا دعویٰ کرتے ہوئے رپورٹ شائع کی ہے کہ ملک کے قومی سلامتی مشیر (این ایس اے) اجیت ڈووال کے صاحبزادے شوریہ ڈووال کے ادارہ انڈیا فاﺅنڈیشن میں ایک بڑے وزیر ڈائریکٹر ہیں اور اس ادارہ کو بیرون ملکی اور ملک کے کارپوریٹ گھرانوں سے مالی مدد ملتی ہے۔ مالی مدد دینے والے کارپوریٹ گھرانوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کے حکومت کے ساتھ کاروباری رشتہ ہے۔

’دی وائر‘ نے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ شوریہ ڈووال کا ادارہ 2014 سے پہلے تک محض ایک ایسا ادارہ تھا جو کیرالہ میں شدت پسند اسلام اور قبائلیوں کے جبراً مذہب تبدیلی جیسے معاملوں پر کچھ گرافکس بناتا رہتا تھا۔ یوں تو یہ ادارہ 2009 سے کام کر رہا تھا، لیکن 2014 کے بعد سے اس کی سرگرمیوں میں تیزی آئی اور اس نے زبردست ترقی کی۔ یہ ترقی دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آج یہ ادارہ ملک کا سب سے اثردار تھنک ٹینک ہے جو ملک اور بیرون ملک صنعت کاروں اور کارپوریٹ گھرانوں کو ایسے اسٹیج دستیاب کراتا ہے جہاں صنعت کار مرکزی وزراءاور اعلیٰ افسروں سے ملتے جلتے ہیں اور سرکاری پالیسیوں کی باریکیوں پر مذاکرہ کرتے ہیں۔ انڈیا فاﺅنڈیشن کے غیر شفاف مالی لین دین، سینئر وزراءکا اس ادارہ کا ڈائریکٹر ہونا کئی طرح کے سوال کھڑے کرتا ہے، کیونکہ ادارہ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر شوریہ ڈووال خود ایک ایسا مالی ادارہ ’جیمنی فنانشیل سروسز‘ کے نام سے چلاتے ہیں جس کا کام ایشیائی اور دوسرے ممالک کی معیشتوں کے درمیان لین دین کا کام انجام دینا ہے۔ ایسے میں اس سے مفاد کے ٹکراﺅ اور لابنگ کا معاملہ صاف نظر آتا ہے۔ یہ وہی وعدہ ہے جو وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک سے کیا تھا کہ اقتدار کے گلیاروں سے وہ دلالوں کی چھٹی کر دیں گے۔

یہاں یہ جاننا لازمی ہے کہ شوریہ ڈووال سیاسی طور پر بے حد اثرانداز قومی سلامتی مشیر اجیت ڈووال کے صاحبزداے ہیں اور یہ دلچسپ اتفاق اس دعویٰ کو بھی خارج کرتا ہے جس میں نسل پرستی کو ختم کرنے کی بات کہی گئی تھی۔

انڈیا فاﺅنڈیشن ظاہری طور پر شوریہ ڈووال اور بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو چلاتے ہیں۔ لیکن اس کی ہدایت کار ٹیم میں وزیر دفاع نرملا سیتا رمن، وزیر کامرس سریش پربھو کے علاوہ شہری ہوابازی کے ریاستی وزیر جینت سنہا اور ریاستی وزیر برائے خارجہ ایم جے اکبر شامل ہیں۔

چار اہم وزراء، آر ایس ایس سے آئے طاقتور بی جے پی لیڈر اور پی ایم او پر اثر رکھنے والے شخص کا بزنس مین بیٹا جس ادارہ کو چلاتا ہو اس میں مناسب اور طاقتور تھنک ٹینک اور کیا ہو سکتا ہے۔ اس ادارہ نے اب تک جتنے بھی پروگرام کیے ہیں ان میں اہم پالیسی سازوں کی موجودگی رہی ہے، جس کے سبب یہ سبھی پروگرام زبردست کامیاب ہی نہیں ہوئے بلکہ حکومت اور ملک و بیرون ملک کمپنیوں نے انھیں اسپانسر بھی کیا۔

اس ادارہ کی کامیابی کا راز اس میں شامل یہ 6 اہم چہرے ہیں، تو یہی اس ادارہ کا مسئلہ بھی ہے۔ کیونکہ اس میں سیدھے طور پر مفاد کے ٹکرانے کا معاملہ سامنے آتا ہے کیونکہ ملک و بیرون ملک کمپنیاں اس ادارہ کے پروگرام میں تعاون کر حکومت سے اپنی مرضی کے مطابق کام لے سکتی ہیں یا ان پالیسیوں میں تبدیلی کرا سکتی ہیں جس سے ان کا کاروبار اثر انداز ہوتا ہو۔

چونکہ یہ ادارہ ایک ٹرسٹ چلاتا ہے اس لیے قانونی طور پر اسے اپنی بیلنس شیٹ منظر عام پر لانا لازمی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ہدایت کار ٹیم میں مرکزی وزراءکی موجودگی کے باوجود اس ادارہ نے اپنے مالی لین دین یا خزانہ کے ذرائع بتانے سے انکار کر دیا۔

’دی وائر‘ کا دعویٰ ہے کہ اس رپورٹ کو تیار کرتے وقت اس ادارہ سے جڑے سبھی چھ لوگوں کو ایک خط بھیج کر کچھ سوالوں کے جواب مانگے گئے تھے، لیکن وزراءنے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا، جب کہ رام مادھو نے وعدہ کیا کہ اس سلسلے میں ’کوئی مناسب شخص‘ ان سوالوں کے جواب دے گا۔ لیکن اس مناسب شخص کا جواب بھی نہیں آیا۔

ہاں، شوریہ ڈووال نے خزانہ کے ذرائع کے بارے میں یہ ضرور کہا کہ ”کانفرنس، اشتہار اور جرنل“۔ شوریہ ڈووال نے یہ نہیں بتایا کہ کن کمپنیوں سے یہ خزانہ ملتا ہے اور نہ ہی یہ بتایا کہ ایک ٹرسٹ کی طرح رجسٹرڈ ’انڈیا فاﺅنڈیشن‘ اپنے روزمرہ کے کام کیسے کرتا ہے، ہیلی روڈ جیسے مہنگے علاقے میں جگہ کا کرایہ کیسے دیتا ہے اور اپنے ملازمین کو تنخواہ کیسے اور کہاں سے دیتا ہے۔

’دی وائر‘ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ شوریہ سے اسی طرح کے سوال 2015 میں ’اکونومک ٹائمز‘ نے بھی کیے تھے جس کے جواب میں انھوں نے کہا تھا کہ ”ہم اسپانسر لاتے ہیں اور دوسرے ذرائع سے مدد لیتے ہیں۔ یہ تبھی ہوتا ہے جب ہم پروگرام یا سیمینار کرنے والے ہوتے ہیں۔ ہم الگ الگ شراکت داروں کے ساتھ شراکت داری کرتے ہیں۔ ہم اپنا کام کرتے ہیں اور وہ اپنا۔“

’دی وائر‘ کا کہنا ہے کہ انڈیا فاﺅنڈیشن نے جو پروگرام کیے ہیں ان میں سے ایک پروگرام تھا ’اسمارٹ بارڈر مینجمنٹ‘۔ اس پروگرام کے اسپانسر کے نام پروگرام کے دوران اسٹیج اور پروگرام کے مقام پر صاف دیکھے جا سکتے تھے۔ ان پروگراموں کی تصویر میں بھی یہ نظر آتے ہیں۔ ان اسپانسر میں بوئنگ جیسی غیر ملکی ہوا بازی کمپنی اور دفاعی معاملوں کی اشیاءکی فراہمی کرنے والی اسرائیلی کمپنی ماگل کے نام ہیں۔ اس کے علاوہ ڈی بی ایس بینک اور کئی دیگر پرائیویٹ کمپنیاں بھی اس پروگرام کے اسپانسرس میں شامل تھیں۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ان کمپنیوں کے اسپانسرشپ کی صورت یا پھر شرطیں کیا تھیں اور انھوں نے اس اسپانسرشپ کتنے پیسے دیے اور کسے دیے۔

’دی وائر‘ کے مطابق یوں تو ’انڈیا فاﺅنڈیشن‘ آفیشیل طور پر کہتا ہے کہ وہ ایک آزاد ریسرچ سنٹر ہے جس کا کام ہندوستانی سیاست کے ایشوز، چیلنجز اور مواقع کے بارے میں بات کرنا ہے۔ لیکن ایک ویڈیو انٹرویو میں شوریہ ڈووال نے خود ہی اعتراف کیا ہے کہ ’انڈیا فاﺅنڈیشن‘ پالیسی سازی کے کئی اہم پہلوﺅں پر بی جے پی اور مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انٹرویو جیمنی فنانشیل سروسز کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ شفافیت یہاں بالکل بے معنی ہے۔ ڈووال اس کے پہلے ’جیئس کیپٹل‘ نام کی کمپنی چلاتے تھے جسے انھوں نے 2016 میں جیمنی فنانشیل سروسز میں ضم کر دیا۔ جیمن فنانشیل سروسز کے چیئرمین سعودی عرب کے برسراقتدار شاہی خاندان کے رکن اور مرحوم شاہ عبداللہ کے بیٹے پرنس مشل بن عبداللہ بن ترکی بن عبدالعزیز السعود ہیں۔

’دی وائر‘ نے رپورٹ میں آگے لکھا ہے کہ جب انھوں نے شوریہ سے یہ سوال پوچھا کہ ان کی کمپنی میں مرکزی وزراءکی موجودگی سے کیا مفاد کے ٹکراﺅ کا معاملہ نہیں بنتا، تو شوریہ کا جواب تھا ”اس کا کوئی سوال ہی نہیں۔ ’انڈیا فاﺅنڈیشن‘ نہ تو خود اور نہ ہی کسی کے لیے کوئی بھی ایسا ٹرانجیکشن یا لین دین کرتا ہے۔ ’انڈیا فاﺅنڈیشن‘ کے چارٹر میں لابنگ یا اس قسم کی دوسری سرگرمی کرنا شامل نہیں ہے۔“

’دی وائر‘ کا دعویٰ ہے کہ اس بارے میں انھوں نے وزیر اعظم دفتر سے بھی سوال پوچھا تھا لیکن وہاں سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

Published: 04 Nov 2017, 12:09 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 04 Nov 2017, 12:09 AM IST