یہ کہانی اب این آر سی سے آگے کی ہے۔ جن 19 لاکھ سے زیادہ لوگوں کے نام این آر سی کی حتمی فہرست میں نہیں آئے ہیں، انھیں یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ این آر سی کی حتمی فہرست سے باہر ہوئے لوگوں کے لیے خود کو ہندوستانی ثابت کرنے کا ایک اہم راستہ فارنرس ٹریبونل یعنی ایف ٹی ہے، جہاں یہ 31 دسمبر 2019 تک اپیل کر سکتے ہیں۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ ایف ٹی کے پرانے ریکارڈ کی بنیاد پر لوگوں کا اس پر سےبھی بھروسہ اب ختم ہو چکا ہے۔
Published: undefined
آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ایف ٹی رکن کی اہلیت کے لیے اندرونی طور پر کیا پیمانہ رکھا گیا ہے۔ ایف ٹی رکن بننا اس بات پر طے ہوتا ہے کہ اس رکن نے اپنی مدت کار میں کتنے لوگوں کو غیر ملکی قرار دیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ایف ٹی اراکین کے معاہدے کی تجدید کرنے کے لیے 2017 کے ٹریبونل اراکین کے دو سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ اس جائزہ میں جن اراکین نے کم معاملوں کا نمٹارا کیا، لیکن زیادہ درخواست دہندگان کو غیر ملکی قرار دیا، ان کی پرفارمنس کو ’بیسٹ‘ بتاتے ہوئے انھیں ایف ٹی میں رکھا گیا۔ جب کہ جن اراکین نے زیادہ معاملوں کا نمٹارا کیا، لیکن کم درخواست دہندگان کو ’غیر ملکی‘ قرار دیا، ان کی پرفارمنس کو خراب بتاتے ہوئے ایف ٹی سے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ علاوہ ازیں کچھ لوگوں کو ایف ٹی میں اس مشورے کے ساتھ برقرار رکھا گیا ہے کہ انھیں بہتری کی ضرورت ہے۔
Published: undefined
بارپیٹا ضلع کے ایف ٹی رکن نیلے کانتی گھوش نے اپنے دو سال کی مدت کار میں 485 معاملوں کا نمٹارا کیا۔ اس دوران انھوں نے صرف 4 درخواست دہندگان کو غیر ملکی قرار دیا۔ ایسے میں ان کی کارکردگی کو ’خراب‘ بتاتے ہوئے انھیں ٹریبونل سے نکال دینے کی بات کی گئی۔ دھبری کے ایف ٹی رکن نابا کمار بروا نے اپنے ذریعہ نمٹائے گئے 321 معاملوں میں 240 درخواست دہندگان کو غیر ملکی قرار دیا تو ان کی کارکردگی کو ’اچھا‘ بتاتے ہوئے انھیں ایف ٹی رکن برقرار رکھنے کی بات کہی گئی۔ دھبری کے ہی ایف ٹی رکن ہیمنت مہنتا نے 574 معاملوں میں 88 درخواست دہندگان کو غیر ملکی قرار دیا تو انھیں بہتری کی ضرورت بتاتے ہوئے ایف ٹی میں رکھنے کی اجازت دی گئی۔
Published: undefined
واضح رہے کہ جب 2017 میں 19 ایف ٹی اراکین کو یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ ان کا پرفارمنس ’خراب‘ ہے تو اس وقت ان 19 ایف ٹی اراکین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ گواہاٹی ہائی کورٹ میں آسام حکومت نے اس عرضی پر اپنے جواب میں کہا ’’ریاستی حکومت، محکمہ داخلہ اور سیاسی محکمہ تقرری افسر ہے اور اسے انتخاب کا پورا حق ہے۔‘‘
Published: undefined
کیا فارنرس ٹریبونل سیاسی کنٹرول میں ہیں؟
فارنرس ٹریبونل پر ہمیشہ سے یہ الزام لگتا رہا ہے کہ اس ٹریبونل میں سارے فیصلے سیاسی مداخلت سے لیے جاتے ہیں۔ اسی الزام کو لے کر آسام کے ایک رکن اسمبلی نے آسام اسمبلی میں سال 2018 میں ایک تحریری سوال پوچھا تھا کہ ’’کیا وزیر اعلیٰ کی ایف ٹی اراکین کے ساتھ میٹنگ رکھی گئی ہے؟ اگر ہاں تو ان میٹنگوں کا ایجنڈا کیا ہے؟‘‘ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ ’’ہاں، میٹنگ رکھی گئی ہے۔ لیکن اس میٹنگ کا کوئی ایجنڈا اور کارروائی طے نہیں کی گئی ہے۔‘‘ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وزیر اعلیٰ ایف ٹی اراکین کے ساتھ میٹنگ کر سکتے ہیں؟ اس کے جواب میں کہا گیا ’’فارنرس ٹریبونل (ایف ٹی) سیاسی ’بی‘ محکمہ کے کنٹرول میں ہے اور اس محکمہ کا سربراہ ہونے کے ناطے اور ریاستی انتظامیہ کا سربراہ ہونے کے ناطے وزیر اعلیٰ کے ذریعہ ایف ٹی عدالت کے اراکین کے ساتھ میٹنگ کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
کون ہو سکتا ہے ایف ٹی کا رکن؟
ایک وکیل جسے کم از کم 7 سال کا تجربہ ہو، وہ ایف ٹی ہیڈ یعنی فارنرس ٹریبونل کا سربراہ ہو سکتا ہے۔ حالانکہ ایف ٹی ہیڈ کو آفیشیل طور پر جج نہیں کہا جاتا ہے۔ سہولت کی بات کریں تو ایک ایف ٹی ہیڈ کو فی ماہ 85 ہزار روپے اور ایک کار کی سہولت ملتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز