کورونا وائرس انفیکشن سے مقابلے کو لے کر مرکزی حکومت کی بڑبولی تیاریوں کی ایک ایک کر کے قلعی کھلی تو اب ساری خامیوں کے لیے عوام کو ہی قصوروار بنانے کی تیاریوں پر سارا فوکس ہے۔ کئی بڑے شہروں، ریاستوں میں مہاجر مزدوروں کو ان کے حال پر چھوڑنے کا معاملہ ہو یا زندہ رہنے کی ان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی گارنٹی کا مسئلہ، حکومتی ناکامیاں ظاہر ہو گئی ہیں۔ لاک ڈاؤن سے پہلے ایک بڑی اور بے سہارا آبادی کے بارے میں ذرا بھی نہیں سوچا گیا۔
Published: undefined
کورونا سے اب تک حقیقی معنوں میں کتنے لوگ مارے گئے، ابھی اس کے دیے گئے اعداد و شمار پر ماہرین کو شبہ ہے۔ اس درمیان وزارت صحت کے ذریعہ جاری بیان میں انفیکشن والے مریضوں اور مہلوکین کی تعداد میں اچانک ہوئے کئی گنا اضافہ کے لیے عام لوگوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں شراب کے سرکاری ٹھیکوں کی دکانوں کو کھولنے سے جس طرح ایک ایک دکان پر سینکڑوں لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہونے کا راستہ کھل گیا اور بھگدڑ کو فروغ دیا گیا، اس سے سبھی دعووں کی دھجیاں اڑ گئی ہیں۔
Published: undefined
پہلی بار مودی حکومت کو احساس ہوا ہے کہ لاک ڈاؤن کو کورونا کا علاج بتانے کی تکڑم محض 40 دن میں ہی ناکام ہو گئی۔ لاک ڈاؤن کے ڈیڑھ ماہ گزرنے کے بعد اب حکومت خود ہی ایسے سوالوں سے گھری رہی ہے جن کا اطمینان بخش جواب اس کے پاس نہیں ہے۔ پی ایم مودی کے کئی حامی بھی اب کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اتنے بڑے مسئلہ اور خطرناک وبا کا علاج صرف لاک ڈاؤن کو ماننا ہی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی۔
Published: undefined
جب وبا کا انفیکشن کچھ چنندہ جگہوں تک ہی تھا تب مرکزی حکومت کے وزراء، وزارت صحت کو یہی زہر اور غلط فہمی پھیلانے کا کام سونپا گیا تھا کہ تبلیغی جماعت کی وجہ سے ملک کورونا کی زد میں آیا۔ یہ عمل دو ہفتہ سے زیادہ چلایا گیا۔ وزارت صحت کی جانب سے روزانہ پریس بریفنگ میں جو اعداد و شمار جاری کیے جاتے رہے کہ کس ریاست میں کہاں جماعتی گئے اور کورونا کا اثر بڑھا، اس پر عمل بی جے پی کی ریاستی حکومت نے بھی کیا۔
Published: undefined
انفیکشن کے معاملوں اور صحت کے شعبہ میں دہائیوں سے کام کرنے والے ماہر چین سمیت دنیا کے باقی ممالک کے اس وبا سے لڑنے کے تجربات کی بنیاد پر عام لوگوں اور ممکنہ انفیکشن والے مریضوں کے ریپڈ ٹیسٹ نہ ہونے پر سوال کھڑے کر رہے تھے۔ یہ ایشو اپوزیشن پارٹیاں بھی اٹھا رہی ہیں، لیکن ایسے سخت سوالوں کے جواب حکومت کے پاس نہیں تھے کہ اس کی تیاریاں کمزور پچ پر تھیں۔
Published: undefined
کئی ماہرین ہی نہیں بلکہ محکمہ صحت میں کئی لوگ ہیں جو اعتراف کر رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں بنیادی صحت کا کوئی ڈھانچہ نہیں ہونے کی وجہ سے شروعات میں ہی بڑی تعداد م یں مریضوں کو لوٹا دیا گیا کہ ان میں کورونا کی کوئی علامت نہیں ہے۔ ملک میں دوسری طرف سرکاری نظام کا سب سے کمزور حصہ ملک میں وینٹی لیٹرس کی زبردست کمی کی تھی۔ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ پی ایم مودی کی پہلی ویڈیو کانفرنسنگ میں جب سبھی ریاستوں سے وینٹی لیٹرس کی طلب زور و شور سے اٹھی تو پہلی بار ثابت ہوا کہ ہم اس طرح کی وبا سے نمٹنے میں کہیں بھی نہیں ٹک رہے۔
Published: undefined
کورونا وبا کے بہانے ہندوستان کی معیشت کی انہی ناکامیوں کو لے کر کئی ماہرین نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ جو دو ماہ میں ہوا ہے وہ تو محض ایک تنبیہ کی آہٹ بھر ہے۔ آگے سنبھلے نہیں تو مزید خطرناک حالات ہوں گے۔ گجرات ودیاپیٹھ کی چانسلر ایلا آر بھٹ کہتی ہیں کہ "ایسے حالات سے نمٹنے میں ہماری خستہ حال معیشت اور صحت خدمات کے کھوکھلے پن کے ساتھ یہ کمزوری بھی ظاہر ہوئی ہے کہ اس آڑ میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی گئی، جس کا خمیازہ سماج کے کمزور لوگوں کو بھگتنا پڑا۔"
Published: undefined
کرناٹک، گجرات، مہاراشٹر سمیت کئی ریاستوں میں ڈیڑھ ماہ سے بغیر کام اور روزگار کے خالی بیٹھے مہاجر مزدوروں کا صبر ٹوٹ چکا ہے۔ ڈیڑھ ماہ تک زیادہ تر لوگوں کی خیریت ہی نہیں لی گئی۔ ہزاروں مزدور جب پیدل ہی سینکڑوں کلو میٹر کا سفر کر کے اپنے گھروں کو جانے کے لیے مجبور ہوئے تو بھی مرکز اور ریاستی حکومتوں کا من نہیں پسیجا۔ کرناٹک حکومت کو جب لگا کہ ان کے یہاں سے عمارتوں کی تعمیر میں لگے مزدوروں کی ہزاروں کی تعداد میں ہجرت سے بلڈر لابی کو دقت ہوگی، تو کرناٹک سے مغربی بنگال جانے والی خصوصی ٹرین گاڑیوں کو مرکزی حکومت پر دباؤ بنا کر آخری لمحات میں رد کروا دیا گیا۔
Published: undefined
اتر پردیش کانگریس کے سینئر لیڈر اور کئی بار رکن اسمبلی رہ چکے انوگرہ نارائن سنگھ کہتے ہیں کہ "مرکز کی مودی حکومت کے دعووں کے باوجود یو پی کے کئی شہروں میں پہنچنے والے مہاجر مزدوروں سے ریلوے کرایہ وصول کیا گیا۔ جو حکومت بھوکے پیاسے مزدوروں کو اپنے گھر نہیں پہنچا سکتی، اس حکومت کو مزدور مفادات کی دُہائی دینے کا کوئی اخلاقی حق نہیں ہے۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined