خبر ہے کہ وزیر اعظم کی گھریلو ریاست گجرات کے وزیر اعلی وجے روپانی نے استعفی دے دیا ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ گجرات میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا تھا اور یہ خبر اچانک نہیں آئی ہے، بلکہ پہلے سے اس تعلق سے گجرات بی جے پی میں بات چیت ہو رہی تھی اور کچھ ارکان میں ضرور ان کے خلاف ناراضگی رہی ہوگی۔ ابھی نہ تو ان کے استعفے کی وجہ سامنے آئی ہے اور نہ ہی ان کی جگہ کس کو وزیر اعلی بنایا جائے گا اس کی کوئی چرچہ ہے۔
Published: undefined
واضح رہے گجرات میں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے ہیں اور چار سال بعد اگر کسی وزیر اعلی کو ہٹایا جائے یا اس کو مستعفی ہونا پڑے تو یہ اس کے گزشتہ چار سالوں کے کام کاج پر بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہوتا ہے۔ گجرات کا ہی کیوں ذکر کیا جائے بلکہ بی جے پی کے زیر اقتدار اکثر ریاستوں میں یہی حال ہے۔ اتراکھنڈ میں دو وزراء اعلی بدلے جا چکے ہیں اور اب انتخابات سے چند ماہ پہلے تیسرے کے ہاتھ میں ریاست کی باگ ڈور دی گئی ہے۔ کرناٹک میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔ وہاں بھی نئے وزیر اعلی کو ذمہ داری دی گئی ہے۔ اتر پردیش میں یو گی آدتیہ ناتھ کو ہٹانے کی خبریں خوب گرم رہیں اور بعد میں ان کو نہ ہٹانے کا فیصلہ لیا گیا۔ ایسی ہی کچھ خبریں مدھیہ پردیش سے بھی آ ئی تھیں اور زبردست چرچا تھی کہ وزیر اعلی کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
سوال سب سے بڑا یہ ہے کہ بی جے پی جو یہ دعوی کرتی ہے کہ اس کی حکومتیں اچھا کام کرتی ہیں تو پھر بیچ میں وزیر اعلی کیوں تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ بات صرف ریاستی حکومتوں تک محدود نہیں ہے۔ مرکز میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔ کووڈ میں جس وزیر صحت کے کام کاج کی جم کر تعریف کی گئی اسے ہٹا دیا گیا۔ تعلیمی پالیسی کے لئے جس وزیر تعلیم کی خوب تعریف کی گئی اس کو بھی ہٹا دیا گیا۔ جس کھیل کے وزیر کی جم کر تعریف کی گئی اسے ہٹا دیا گیا، ٹیلی مواصلات کے جس وزیر نے حکومت کے ہر فیصلہ کا دفاع کیا اسے ہٹا دیا گیا۔ حکومت کے یہ تمام فیصلے حکومت اور وزراء کی کارکردگی پر سوال کھڑے کرتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک سال کے لئے گجرات کا وزیر اعلی کون بنتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز