مغربی بنگال میں حال ہی میں ختم ہوئے پنچایت انتخابات میں دارجیلنگ اور کلمپونگ کی پہاڑیوں میں شکست کا سامنا کرنے کے بعد گورکھا جن مکتی مورچہ (جی جے ایم) سپریمو بمل گرونگ نے بی جے پی کو الگ ’گورکھا لینڈ‘ ریاست کے ایشو پر اپنا رخ واضح کرنے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے بھگوا خیمہ سے دوری بنانے کا اشارہ دے دیا ہے۔ گرونگ نے کہا کہ بی جے پی کو الگ گورکھا لینڈ ریاست پر اپنا رخ کھل کر ظاہر کرنا ہوگا۔
Published: undefined
گورکھا جن مکتی مورچہ چیف نے کہا کہ ہم 15 اگست تک انتظار کریں گے کہ کیا وزیر اعظم گورکھا لینڈ ایشو پر کوئی خاص پیغام دیتے ہیں، اور اگر ایسا کچھ نہیں ہوگا تو ہم اپنا الگ راستہ اختیار کرنے کے لیے مجبور ہوں گے۔ گرونگ نے یہ بھی کہا کہ 4 اگست کو جی جے ایم الگ ریاست کے اپنے مطالبہ کی حمایت میں نئی دہلی کے جنتر منتر پر ایک ریلی منعقد کرے گا۔ گرونگ کا کہنا ہے کہ ’’یہ تحریک ہماری گورکھا پہچان کے لیے ہوگی۔ ہمیں نئی دہلی میں ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو گورکھاؤں کے جذبات کو سمجھے۔‘‘
Published: undefined
سیاسی تجزیہ نگار اس بیان کو بی جے پی کے لیے تنبیہ کی شکل میں دیکھتے ہیں، کیونکہ بھگوا خیمہ 2009، 2014 اور 2019 میں جی جے ایم کی حمایت سے ہی دارجیلنگ میں اپنے امیدوار کو جتانے میں کامیاب رہا تھا۔ حالانکہ حال میں اختتام پذیر پنچایت انتخابات میں جی جے ایم سمیت آٹھ مقامی پہاڑی پارٹیوں کے ساتھ بی جے پی اتحاد کو بڑا جھٹکا لگا، جب ترنمول کانگریس حامی اور انیت تھاپا کے ذریعہ قائم بھارتیہ گورکھا پرجاتنترک مورچہ (بی جے پی ایم) بیشتر سیٹوں پر کامیاب بن کر ابھرا۔
Published: undefined
اس درمیان دارجیلنگ ضلع کے بی جے پی صدر کلیان دیوان نے بمل گرونگ کے اس بیان کو ناپختہ بتایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ الگ ریاست کے معاملے میں بہت ساری پیچیدگیاں ہیں اور اسے منٹوں میں نہیں سلجھایا جا سکتا ہے۔ اس پر بہت بحث کی ضرورت ہے۔ اس ایشو پر مرکزی حکومت کے خلاف محاذ کھولنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
Published: undefined
حال ہی میں بی جے پی کو کرسیانگ سے اپنی ہی پارٹی کے رکن اسمبلی وشنو پرساد شرما کی بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ریاست میں حال ہی میں اختتام پذیر پنچایت انتخابات میں دارجیلنگ اور کلمپونگ ضلعوں کے پہاڑی علاقوں میں ان کی پارٹی اور اس کے ساتھیوں کے خراب نتیجے باہری لوگوں کی وہج سے تھے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز