ہندوستان میں آبادی پر قابو پانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جانے کی آواز لگاتار اٹھ رہی ہے، اس درمیان ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں گزشتہ دہائیوں میں سبھی مذاہب کے لوگوں کی شرح پیدائش میں زبردست گراوٹ ہوئی ہے۔ یہ رپورٹ اس تعلق سے کافی اہم ہے کہ ہندو خواتین ہی نہیں، بلکہ مسلم خواتین میں بھی بچوں کی شرح پیدائش کو لے کر بڑی گراوٹ کا پتہ چلا ہے۔ بی جے پی حکمراں ریاستوں میں جب بھی آبادی کنٹرول پر بات ہوتی ہے تو مسلمانوں کو آبادی بڑھنے کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور ان کے خلاف زہر افشانی بھی ہوتی رہی ہے، لیکن تازہ رپورٹ نے سچائی سب کے سامنے لا دی ہے۔
Published: undefined
امریکی ادارہ ’پیو ریسرچ سنٹر‘ کا ایک تازہ مطالعہ بتاتا ہے کہ 1951 سے ہندوستان کی مذہبی بناوٹ میں معمولی تبدیلی ہوئی ہے۔ ہندوستان کے سبھی مذاہب میں شرح پیدائش لگاتار گھٹی ہے جس وجہ سے ملک کی اصل مذہبی بناوٹ میں معمولی تبدیلی ہوئی ہے۔ 1.2 ارب آبادی والے ملک میں 94 فیصد لوگ ہندو اور مسلم مذہب کے ہیں۔ باقی چھ فیصد آبادی میں عیسائی، سکھ، بودھ اور جین شامل ہیں۔ پیو ریسرچ سنٹر نے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس) اور مردم شماری کے اعداد و شمار کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔ اس مطالعہ کے ذریعہ یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستان میں مذہبی ڈھانچہ میں کس طرح کی تبدیلی آئی ہے، اور اگر ایسا ہوا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے۔ 1951 کی مردم شماری میں ہندوستان کی آبادی 36.1 کروڑ تھی جو 2011 میں 1.2 ارب ہو گئی تھی۔ پیو کا مطالعہ کہتا ہے کہ اس دوران سبھی مذاہب کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ ہندوؤں کی آبادی 30.4 کروڑ سے بڑھ کر 96.6 کروڑ ہو گئی ہے، اور اسلام کو ماننے والے 3.5 کروڑ سے بڑھ کر 17.2 کروڑ پر پہنچ گئے ہیں۔ علاوہ ازیں عیسائیوں کی آبادی 80 لاکھ سے بڑھ کر 2.8 کروڑ ہو گئی ہے۔
Published: undefined
رپورٹ میں حالانکہ 2015 کے اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں میں شرح پیدائش سب سے زیادہ 2.6 بتائی گئی ہے، لیکن اس کے بعد ہندوؤں کا نمبر آتا ہے جن میں شرح پیدائش 2.1 ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ دونوں طبقہ کے درمیان شرح پیدائش کو لے کر بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ جین مذہب میں شرح پیدائش فی خاتون 1.2 دیکھنے کو ملی جو کہ دیگر سبھی مذاہب کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1992 میں مسلمان خواتین میں شرح پیدائش 4.4 اور ہندوؤں میں 3.3 تھی۔ یعنی فی خواتین مسلمانوں میں شرح پیدائش 4.4 بچے اور ہندوؤں میں شرح پیدائش 3.3 تھی۔ اس پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں میں شرح پیدائش میں زبردست گراوٹ درج کی گئی ہے۔ مسلم خواتین میں پہلے کے مقابلے شرح پیدائش میں تقریباً 2 بچے فی خواتین کی کمی درج کی گئی ہے، جب کہ ہندوؤں میں فی خواتین 1.2 بچے کی کمی درج کی گئی۔
Published: undefined
پیو ریسرچ سنٹر کی سینئر محقق اسٹیفنی کریمر لکھتی ہیں کہ ایک ہی نسل میں 25 سال سے کم عمر کی مسلم خواتین کے بچے پیدا کرنے کی شرح میں تقریباً دو بچوں کی کمی ہو گئی ہے۔ ساتھ ہی کریمر کے مطابق 1990 کی دہائی میں ہندوستان میں فی خواتین 3.4 بچے جنم لے رہے تھے جو کہ 2015 میں گھٹ کر 2.2 پر پہنچ گیا۔ اس میں سب سے بڑا تعاون مسلم خواتین کا ہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined