کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج آ چکے ہیں اور 222 اسمبلی سیٹوں میں بی جے پی کو 104، کانگریس کو 78، جے ڈی ایس+ کو 38 اور دیگر کو 2 سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ کانگریس اور جے ڈی ایس کے ذریعہ اتحاد کا فیصلہ کیے جانے کے بعد بی جے پی کے پاس حالانکہ حکومت سازی کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا لیکن آج بی جے پی پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ کے لیے صدر دفتر پہنچے وزیر اعظم نریندر مودی نے پارٹی کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے جس طرح واضح لفظوں میں یہ کہا کہ ’’عوام کے مینڈیٹ کو روندنے نہیں دیا جائے گا‘‘، اس سے صاف اشارہ مل رہا ہے کہ بی جے پی ریاست میں حکومت سازی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔
اس خطاب میں وزیر اعظم نریندر مودی نے عوام کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے پارٹی کارکنان کی محنت کی بھی تعریف کی اور کہا کہ ’’جس طرح سے پارٹی کارکنان نے محنت کی ہے ان کو سَو سَو سلام ہے۔ کرناٹک کے روشن مستقبل میں بی جے پی کہیں پیچھے نہیں رہے گی یہ میں کرناٹک کی عوام کو یقین دلاتا ہوں۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’بی جے پی کسی بھی حال میں کرناٹک کی وِکاس یاترا کو روندنے نہیں دے گی۔‘‘
ایسا نہیں ہے کہ صرف وزیر اعظم نریندر مودی نے ہی اکثریت نہ ملنے کے باوجود کسی بھی حال میں حکومت تشکیل دینے کا اشارہ دیا، بلکہ بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ نے بھی کارکنان کے سامنے کچھ ایسے ہی انداز میں تقریر کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’کرناٹک کی عوام نے کرناٹک کو کانگریس مُکت کرنے کا کام بڑے من سے کیا ہے۔‘‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’2019 میں بی جے پی ہی نریندر مودی جی کی قیادت میں حکومت بنائے گی اور سال 2022 میں مودی کے خوابوں کا نیا ہندوستان بنائیں گے۔‘‘ اتنا ہی نہیں، وہ تو یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ ’’بی جے پی 14 انتخابات لگاتار جیت چکی ہے اور یہ 15واں انتخاب ہے۔‘‘ امت شاہ کا یہ واضح اشارہ ہے کہ انھوں نے گوا میں دوسرے نمبر کی پارٹی رہتے ہوئے بھی حکومت سازی کی اور اب کرناٹک میں اکثریت بھلے ہی انھیں حاصل نہیں ہوئی ہے لیکن جیت بی جے پی کی ہی ہوگی، حکومت سازی سے کانگریس کو دور رکھا جائے گا۔
Published: undefined
بہر حال، وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ کی باتوں سے تو یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ آئندہ کچھ دن کرناٹک میں ہلچل رہنے والا ہے اور کانگریس-جے ڈی ایس اتحاد کو توڑنے کے لیے بھی ہر طرح کی کوششیں کی جائیں گی۔ ذرائع کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ امت شاہ کانگریس اور جے ڈی ایس کے کم و بیش ایک درجن ممبران اسمبلی سے رابطے میں ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو یقیناً ایک بار پھر ’پیسوں کا کھیل‘ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ ویسے کانگریس نے بھی اپنی طرف سے ہر طرح کا احتیاطی قدم اٹھانا شروع کر دیا ہے اور اپنے ممبران اسمبلی کو متحد رکھنے کی کوشش میں مصروف عمل ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز