بی جے پی کے زیر قیادت مرکزی حکومت کی مبینہ شہہ پر ہندوستانی میڈیا کے ایک طبقہ کے ذریعہ پھیلائی گئی نفرت کا اثر اب پورے ملک میں نظر آنے لگا ہے، کسی کو کہیں پر بھی مشتبہ سمجھ کر زدو کوب کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جا رہا ہے اور پھر ایک ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے جس میں سماج تقسیم ہو کر ایک دوسرے کا دشمن ہوجاتا ہے۔ اس نفرت انگیز مہم کے خالق بھگوا بریگیڈ کا مقصد حالانکہ اقلیتوں کو ڈرا کر اپنے تابعدار بنانا تھا مگر ان کی یہ کوشش اب انتہا پسندوں کے لیے وبال جان ثابت ہو رہی ہے۔
Published: undefined
جب سے بی جے پی مرکز پر قابض ہوئی ہے، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف تشدد کی خطرناک مہم چل پڑی، جس میں حجومی تشدد کے ذریعہ متعدد لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہی سلسلہ اب ملک کے دیگر حصوں میں بھی شروع ہو گیا ہے مگر حکومت قانونی شکنجہ کسنے کے برعکس اجتماعی تشدد کو انجام دینے والوں کے تئیں چشم پوشی کرتی رہی۔ یہ سب حکومت کے وزیروں کے ذریعہ اجتماعی تشدد کو انجام دینے والے ملزمین کا گل پوشی کر کے استقبال کیے جانے کا اثر ہے، جو اب خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ جبکہ اطلاع کے مطابق کچھ ملزمان کو سرکاری ملازمت سے بھی نوازا گیا ہے۔
Published: undefined
حکومت کے وزیر و حامی مسلسل اجتماعی تشدد کو انجام دینے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مہاراشٹر کے پالگھر علاقے میں دو سادھوؤں و ان کے ڈرائیور کو اجتماعی تشدد کے ذریعہ پیٹ پیٹ کر بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ ملزمین بی جے پی سے وابستہ ہیں۔ اس معاملے میں مہاراشٹر حکومت کی طرف سے بروقت کارروائی کر کے قصورواروں کو گرفتار کر کے غیرجانبدار حکمرانی کا اشارہ دیا گیا ہے۔ موجودہ ریاستی حکومت کی طرف سے ایسی ہی کارروائی کی امید تھی کیونکہ ریاستی اقتدار کا سیاسی جغرافیہ اب بدل چکا ہے۔ گزشتہ انتخابات کے بعد بی جے پی کی انتہا پسندی کو ٹھکرا کر کانگریس کا 'سیکولر' ہاتھ تھامنے والی شیوسینا کا دماغ ’صاف‘ ہوتا نظر آرہا ہے۔
Published: undefined
ان حالات میں مرکزی حکومت نے اب بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا تو بعید نہیں کہ ہندوستان کی شناخت ’لنچستان‘ کے طور پر قائم ہوجائے اور جب حکومت کو اپنی لاپرواہی کا احساس ہو مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ ملک میں ہجومی تشدد کے خلاف مودی حکومت کے سنجیدگی سے نہیں لینے کی وجہ سے ہی ایک مرتبہ پھر اجتماعی تشدد کے ذریعہ ممبئی سے 125 کلو میٹر دور مہاراشٹر کے پالگھر ضلع کے ایک گاؤں میں تین افراد کو کار سے کھینچ کر بہیمانہ طریقے سے پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا۔ خبروں کے مطابق تینوں لوگ ایک انتم سنسکار میں شامل ہونے کے لیے ممبئی سے گجرات کے سورت جا رہے تھے مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہیں ریاست دادر نگر حویلی کے سلواسا علاقے میں روک دیا گیا۔
Published: undefined
یہ علاقہ ریاست گجرات اور مہاراشٹر کی سرحد پر واقع ہے۔ جب وہ واپس آرہے تھے تو راستے میں گڑھ چنچلے گاؤں کے لوگوں نے بچہ چور ہونے کے شک میں ان کی گاڑی رکوائی اور ان پر حملہ کر دیا۔ گزشتہ کچھ عرصہ میں پیش آنے والے ہجومی تشدد کے واقعات کو حکومت نے سنجیدگی سے لیا ہوتا تو شاید یہ واقعہ پیش نہیں آتا۔ یہ موب لنچنگ پوری انسانیت و آئین کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ چند روز بعد واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر ہونے لگی اور بعض افراد نے اس ’موب لنچنگ‘ کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی، لیکن ریاستی حکومت کی جانب سے وضاحت کی گئی کہ اس واقعے میں مسلمان ملوث نہیں ہیں۔
Published: undefined
اسی درمیان گاؤں کی آبادی کا مطالعہ کرنے پر پتہ چلا کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق گڑھ چنچلے گاؤں میں 248 خاندان رہتے ہیں اور وہاں کی کل آبادی 1208 لوگوں پر مشتمل ہے۔ گڑھ چنچلے گاؤں کے سماجی پہلو اور آبادی پر ریسرچ کرنے والی تنظیم ’پول ڈائری‘ کے مطابق اس گاؤں میں 1198 خاندان قبائلی ہیں اور صرف ایک خاندان ہے جس کا تعلق نام نہاد ’پسماندہ‘ ذات سے ہے۔ 56 فیصد آبادی کا تعلق کوکنا نامی قبائل سے ہے، 34 فیصد ورلی قبائل، 6 فیصد کتکری قبائل اور 4 فیصد لوگوں کا تعلق پسماندہ ذات ملہر سے ہے۔ 2019 کے لوک سبھا الیکشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس گاؤں میں ایک بھی مسلمان خاندان نہیں ہے۔
Published: undefined
اس اجتماعی قتل کے معاملے میں شرپسندوں نے ملک کی فضا کو درہم برہم کرنے کے لئے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی لیکن مہاراشٹر حکومت نے ’مرنے والے اور مارنے والوں کے مذہب میں کوئی فرق نہیں ہے‘ کہہ کر بھگوا بریگیڈ کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ فوری تفتیش میں یہ واضح ہوگیا کہ ملزمان اکثریتی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن کچھ شرپسندوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی اور وہ سوشل میڈیا پر مسلم نام کا پروپیگنڈہ کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے لگے مگر اسی دوران مہاراشٹر حکومت کے وزیر داخلہ نے ٹوئٹر کا سہارا لے کر انتہا پسندوں کی اس کوشش کو بھی ناکام کر دیا۔
Published: undefined
ریاستی وزیر داخلہ انل دیشمکھ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اپوزیشن پالگھر واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں مصروف ہے جبکہ اس معاملہ میں گرفتار 101 لوگوں میں سے کوئی بھی مسلمان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ واقعہ کے بعد فرقہ وارانہ سیاست کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ ’مونگری لال کے حسین سپنے‘ دیکھ رہے ہیں، یہ وقت سیاست سے کھیلنے کا نہیں ہے بلکہ کورونا وائرس کا اجتماعی طور پر مقابلہ کرنے کا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز