’’میں گریجویشن میں داخلہ لینا چاہتی تھی، لیکن جب میں نے دیکھا کہ وہ لوگ جنھوں نے پوسٹ گریجویشن اور پی ایچ ڈی کر رکھی ہے وہ بے روزگار ہیں تو ایسے میں مجھ جیسے کے لیے کیا امید بچتی ہے جس نے اسکول درمیان میں ہی چھوڑ دیا تھا۔ لیکن اب ایک طویل جدوجہد ہے اور میں مزدوروں کے حقوق کے لیے لڑتی رہوں گی۔‘‘ یہ کہنا ہے 23 سالہ دلت مزدور حقوق کے لیے لڑنے والی کارکن نودیپ کور کا جنھیں گزشتہ مہینے ضمانت ملی ہے۔
Published: undefined
نودیپ کو 12 جنوری کو ہریانہ پولس نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ سنگھو بارڈر کے نزدیک کنڈلی کی ایک فیکٹری میں مزدوروں کی تنخواہ کے لیے آواز بلند کر رہی تھیں۔ پولس نے نودیپ پر جبراً وصولی اور قتل کی کوشش جیسے الزامات لگائے ہیں۔ نودیپ نے بتایا کہ انھیں مرد پولس والوں نے گرفتار کر زبردستی جیپ میں ٹھونس دیا تھا۔ پولس کی گاڑی میں انھیں لاٹھیوں اور جوتوں سے پیٹا گیا۔ مزدور حقوق پر مبنی تنظیم کی رکن نودیپ کو کنڈلی تھانہ لے جایا گیا جہاں انھیں پھر سے ظلم کا شکار بنایا گیا اور آخر میں انھیں سونی پت لے جایا گیا۔
Published: undefined
نودیپ نے بتایا کہ ’’دونوں ہی تھانوں میں کوئی خاتون کانسٹیبل نہیں تھی۔ انھوں نے مجھے اس طرح پیٹا تھا کہ کئی دن تک میں چل بھی نہیں سکی۔ وہ لگاتار مجھے گالیاں دیتے اور کہتے کہ دلت ہو تو دلت کی ہی طرح سلوک کرو۔ وہ مجھے کہتے تمھارا کام نالیاں صاف کرنا ہے، کسی فیکٹری مالک کے خلاف تحریک چلانا نہیں۔‘‘
Published: undefined
نودیپ کی گرفتاری کا ایشو بین الاقوامی سطح پر اٹھا تھا۔ امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس کی بھتیجی مینا ہیرس نے نودیپ کی گرفتاری کی مخالفت کرتے ہوئے انھیں آزاد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ نودیپ کو ضمانت دلانے میں دہلی سکھ گرودوارہ پربندھک کمیٹی نے کافی مدد کی۔
Published: undefined
ہریانہ پولس نے نودیپ پر تین معاملے درج کرائے ہیں۔ اس میں قتل کی کوشش، جبراً وصولی، فساد پھیلانے اور دھمکانے کے الزامات شامل ہیں۔ سونی پت پولس نے نودیپ پر پولس کے اوپر حملہ کرنے کا بھی الزام عائد کیا تھا۔ تقریباً 45 دن حراست میں رہنے کے بعد نودیپ کو آخر 12 فروری کو ضمانت مل گئی تھی۔ نودیپ کہتی ہیں کہ ’’پولس تو سرکاری ظلم کا ایک ہتھیار ہے جسے عام لوگوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
Published: undefined
اس درمیان پولس نے نودیپ کے الزامات سے انکار کیا ہے جب کہ چنڈی گڑھ کے سرکاری میڈیکل کالج اسپتال میں ہوئی نودیپ کی میڈیکل جانچ میں ان کے جس پر چوٹوں کے نشان پائے گئے ہیں۔ نودیپ کے بائیں پیر میں سوزن ہے اور بائیں پیر کا ناخون اکھڑ گیا ہے، ساتھ ہی پیر کی دوسری اور تیسری انگلی کی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں۔ علاوہ ازیں 25 جنوری کو سونی پت کے سول اسپتال میں ہوئی میڈیکل جانچ میں بھی نودیپ کی بائیں جانگھ اور کولہوں پر پیٹے جانے کے نیلے نشان ملے ہیں۔
Published: undefined
نودیپ کی بڑی بہن راجویر، جو دہلی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کسی طرح ہم نودیپ کی میڈیکل جانچ کرا پائے، وہ بھی گرفتاری کے دو ہفتہ بعد۔ انھوں نے بتایا کہ نودیپ کو گرفتاری کے بعد ڈاکٹری علاج نہیں دیا گیا۔ اس کے لیے بھی ہمیں جدوجہد کرنی پڑی۔
Published: undefined
نودیپ جیل سے آزاد ہونے کے بعد سنگھو بارڈر پر مظاہرین کسانوں کے ساتھ ہی رہ رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پولس نے انھیں اس لیے ظلم کا شکار بنایا کیونکہ وہ کسانوں کی حمایت کر رہی تھیں۔ نودیپ کہتی ہیں کہ حکومت انھیں ذات اور مذہب کے نام پر تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ نودیپ کے ساتھ ہی گرفتار ایک دیگر احتجاجی شیو کمار کو ابھی ضمانت نہیں ملی ہے۔ نودیپ بتاتی ہیں کہ شیوکمار کا ہاتھ ٹوٹ گیا ہے، لیکن وہ اب بھی جیل میں ہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined