جموں و کشمیر میں اس وقت کیا ماحول ہے، اس سے ہندوستانی عوام ناواقف ہیں۔ لیکن کچھ ایسی خبریں موصول ضرور ہو رہی ہیں جن میں بتایا جا رہا ہے کہ کشمیری عوام قید و بند میں ہی مبتلا نہیں ہیں بلکہ ظلم کے بھی شکار ہو رہے ہیں۔ حالانکہ مرکز کی مودی حکومت کا کہنا ہے کہ وہاں سب کچھ ٹھیک ہے اور دھیرے دھیرے ریاست میں عائد سبھی پابندیاں بھی ہٹا لی جائیں گی۔ لیکن سچ یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے جموں و کشمیر سے پریشان کرنے والی خبریں بھیجی ہیں۔ اس کے پیش نظر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اس سال عید ملن تقریب منعقد نہ کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔
Published: 29 Aug 2019, 12:10 PM IST
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں عید ملن تقریب منعقد نہ کرنے کا فیصلہ یونیورسٹی ٹیچر ایسو سی ایشن نے لیا ہے اور اس نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ کشمیر کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ٹیچر ایسو سی ایشن کا کہنا ہے کہ جب کشمیری عوام ایک ناقابل بیان استحصال کے دور سے گزر رہے ہیں تو یہاں جشن کیسے منایا جا سکتا ہے۔ بدھ کے روز اے ایم یو ٹیچر ایسو سی ایشن نے اس سلسلے میں ایک میٹنگ کا بھی انعقاد کیا تھا جس میں کئی امور پر گفتگو ہوئی۔
Published: 29 Aug 2019, 12:10 PM IST
میٹنگ میں جموں و کشمیر کے حالات پر خصوصی طور پر غور و خوض ہوا جس کے بعد فیصلہ لیا گیا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے یونیورسٹی ٹیچر ایسو سی ایشن عید ملن تقریب کا انعقاد نہیں کرے گا۔ ایک انگریزی روزنامہ سے بات کرتے ہوئے اے ایم یو ٹیچر ایسو سی ایشن کے اعزازی سکریٹری نجم الاسلام نے بتایا کہ ’’یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی بار عید ملن تقریب کو منسوخ کیا جا رہا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہم عید ملن، ہولی ملن اور ہر سال اے ایم یو ملازمین کے لیے ایک سالانہ عشائیہ کا انعقاد کرتے ہیں۔ اس سال ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں کشمیر کے لوگوں کے ساتھ اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور عید ملن تقریب منعقد نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
Published: 29 Aug 2019, 12:10 PM IST
نجم الاسلام نے انگریزی روزنامہ کو جموں و کشمیر کے موجودہ صورت حال کے بارے میں بتایا کہ ’’حکومت کا دعویٰ ہے کہ کشمیر میں حالات معمول پر آ رہے ہیں، لیکن ہمیں اپنے ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ وادی میں لوگ بہت تکلیف میں ہیں۔ جب لوگ سرکاری مشینری کے ہاتھوں ظلم کے شکار ہوتے ہیں تو ہم جشن نہیں منا سکتے۔ لوگوں کے پاس پینے کے لیے پانی اور کھانے کے لیے کھانا، یہاں تک کہ دوا بھی نہیں ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ سیکورٹی فورسز انھیں ان کے گھروں سے باہر جانے کی اجازت نہیں دے رہی۔ اسپتال کا نظام بھی وہاں بالکل ٹھپ پڑا ہوا ہے۔‘‘
Published: 29 Aug 2019, 12:10 PM IST
انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلی گراف‘ سے بات کرتے ہوئے بایو-کیمسٹری کے ایک پروفیسر نے کہا کہ ’’ہمیں دفعہ 370 کو ہٹائے جانے کے خلاف کوئی بھی رد عمل نہیں دینا۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ حکومت اپنے ہی شہریوں کو گرفتاری کر رہی ہے اور انھیں جیل میں ڈال رہی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’جموں و کشمیر کی سبھی جیل بھر چکی ہیں۔ اس لیے حکومت اب انھیں اتر پردیش کی جیلوں میں بھر رہی ہے۔‘‘
Published: 29 Aug 2019, 12:10 PM IST
دراصل کچھ میڈیا رپورٹوں کے مطابق کشمیر سے تقریباً 200 لوگوں کو اتر پردیش کی جیلوں میں رکھا گیا ہے۔ کشمیر کے لوگوں کو گرفتار کرنے کے فوراً بعد ہی انھیں اتر پردیش کی جیلوں کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ اس طرح کی خبروں سے لوگوں کو یہ تشویش ہو رہی ہے کہ آخر جموں و کشمیر کے لوگ کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت بھلے ہی سب کچھ ٹھیک ہونے کا دعویٰ کر رہی ہو، لیکن جب تک میڈیا یا پھر کوئی عوامی لیڈر جموں و کشمیر نہیں پہنچتا، حقیقت سامنے آنی مشکل ہے۔ چونکہ جموں و کشمیر میں مواصلات اور انٹرنیٹ خدمات بند ہیں، اس لیے کسی کشمیری کا ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے لوگوں سے کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔
Published: 29 Aug 2019, 12:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 29 Aug 2019, 12:10 PM IST
تصویر: پریس ریلیز