حیدرآباد: مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند نے آج بابری مسجد مسئلہ پر عدالت کے باہر کسی بھی طرح کے حل کے امکانات کو مسترد کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اب عدالت کے فیصلے کا انتظار کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے ساتھ ہی کہا کہ جماعت اسلامی ہند ملک میں قانون اور نظم و ضبط کی بگڑتی ہوئی صورتحال، تشدد ومبینہ لا قانونیت کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ملک کے جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کی مختلف کوششوں پر گہری تشویش ظاہر کر تی ہے ۔
مولانا سید جلال الدین عمری نے ملک میں فسطائی قوتوں کی سرگرمی میں ہوئے اضافہ سے متعلق کہا کہ ’’منظم و سلسلہ وار تشدد سے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی کمی ہو گی بلکہ یہ بات اجاگر ہوتی ہے کہ یہ دراصل ملک میں فرقہ وارانہ صف بندی پیدا کرنے کی فسطائی طاقتوں کی ایک منظم کوشش ہے ۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’اس فسطائی ایجنڈہ کی ایک بالکل تازہ مثال کا س گنج ‘ اترپردیش ہے ۔‘‘
انھوں نے کہا کہ جماعت محسوس کرتی ہے کہ تشدد اور آتش زنی پر مقامی پولیس بہ آسانی قابو پاسکتی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتاہے کہ بعض طاقتیں شہر کے پراَمن ماحول کو بگاڑ نا چاہتی تھیں اس واقعہ سے فرقہ وارانہ شعلوں کو روکنے میں یوپی انتظامیہ کی مکمل ناکامی اور سماج دشمن عناصر کو قابو میں کرنے میں مقامی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ یہ تفریق پسند طاقتیں سماج کو حقیر فرقہ وارانہ خطوط پر باٹنا چاہتی ہیں اور عوام کی توجہ کو ملک کے حقیقی مسائل جیسے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری ‘ ناقص انفراسٹر کچر اور تعلیم و نگہداشت صحت کی سہولتوں میں کمی سے پھیر نا چاہتی ہیں ۔
جماعت اپنے ہم وطنوں سے اَمن و اتحاد کو برقرار رکھنے اور فسطائی طاقتوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کی اپیل کرتی ہے جو سماج کو منقسم ‘ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کر کے مذہبی طبقات کے درمیان عداوت پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ مولانا سید جلال الدین عمری نے کہاکہ جماعت اسلامی ہند کا احساس ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے متعارف کردہ ایک لوک سبھا سے منظور طلاق تلاثہ بل دستور ہند کے دفعہ 25 سے ٹکراتا ہے جو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے نیز یہ تین طلاق مسئلہ پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے بھی خلاف ہے ۔
بل کی دفعہ 5 میں صراحت کی گئی ہے کہ شوہر مطلقہ بیوی اور اسکے بچوں کے نان نفقہ کی ذمہ داری لے گا ۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ جب تین طلاق دینے والا شوہر سلاخوں کے پیچھے ہو تو وہ اپنی مطلقہ بیوی اور بچوں کی دیکھ بھال کیسے کر ے گا ؟ پھر تین سال جیل میں گزارنے کے بعد اس سے کیسے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ شوہر اس بیوی کے ساتھ کیسے خوشگوار ازدواجی زندگی کو بحال کر سکے گا ۔ یہ عجیب و غریب بات ہے کہ حکومت نے اس مسئلہ میں مسلم علماء شرعی ماہرین مسلم طبقہ و تنظیموں اور خواتین کی مسلم تنظیموں کی نمائندوں کے ساتھ مشاورت کو ضروری نہیں سمجھا طلاق ثلاثہ سے متعلق عدالت کے فیصلہ کے بعد اس طرح کی ایک بل کی نہ تو کوئی گنجائش تھی نہ ضرورت قانونی ماہرین کے مطابق یہ بل دستور ہند کی دفعہ 14‘ 15 اور 25 کے خلاف جاتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز