بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یو اور اس کے ساتھ اتحاد کرنے والی پارٹی بی جے پی کے درمیان اختلافات ارریہ پارلیمانی سیٹ پر ہونے والے انتخاب کے پیش نظر اتنے بڑھ گئے ہیں کہ جنتا دل یو کے ممبر اسمبلی سرفراز عالم نے پارٹی چھوڑ دی۔ جنتا دل یو سرفراز عالم کو اس سیٹ سے امیدوار بنانا چاہتی تھی لیکن بی جے پی بضد ہو گئی کہ وہ اس سیٹ سے اپنا امیدوار کھڑا کرے گی کیونکہ 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں اس کے امیدوار پردیپ کمار سنگھ دوسرے مقام پر رہے تھے اور سرفراز عالم کے والد اور راشٹریہ جنتا دل کے امیدوار تسلیم الدین نے وہ سیٹ جیتی تھی۔ گزشتہ سال ستمبر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ جنتا دل یو نے 2014 کا لوک سبھا انتخاب تنہا لڑا تھا۔ ارریہ پر وہ اپنا دعویٰ اس لیے نہیں کر سکتی کیونکہ اس کے امیدوار وجے کمار منڈل کثیر ووٹوں کے فرق سے تیسرے مقام پر رہے تھے۔
جب جنتا دل یو اور بی جے پی اس مسئلے پر آمنے سامنے ہوئے تو بہار کی اہم اپوزیشن پارٹی آر جے ڈی نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرفراز عالم کو ان کے والد کی پارٹی میں شامل ہونے کے لیے مدعو کر لیا۔ وہ شاید اب ارریہ سے آر جے ڈی امیدوار ہوں گے۔
ارریہ لوک سبھا سیٹ کے علاوہ بی جے پی نے ان دونوں اسمبلی سیٹوں پر بھی اپنا دعویٰ پیش کیا ہے جن پر 11 مارچ کو ضمنی انتخاب ہونے والے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ بھبھوا سیٹ پر بی جے پی لڑے گی، وہاں اس کے ممبر اسمبلی آنند بھوشن پانڈے کے انتقال کے بعد ضمنی انتخاب ہو رہا ہے۔ جہان آباد سے آر جے ڈی ممبر اسمبلی مندریکا یادو کی ڈینگو سے گزشتہ سال اکتوبر میں موت ہو گئی تھی۔
ایک طرف جہاں جنتا دل یو نے بی جے پی کے مطالبات کو خاموشی کے ساتھ منظور کر لیا ہے وہیں ان کے تین دیگر ساتھی یعنی مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی، مرکزی وزیر اوپیندر کشواہا کی آر ایل ایس پی اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی کی ہندوستانی عوام مورچہ (ہم) نے کھل کر اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔
ایل جے پی ارریہ میں اپنا امیدوار کھڑا کرنے کی خواہاں ہے کیونکہ اس کے امیدوار ذاکر حسین کو 2009 لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کے پردیپ کمار نے محض 23000 ووٹوں سے ہرایا تھا۔ اس پارلیمانی حلقہ میں مسلمانوں کی تعداد اچھی ہے اس لیے ایل جے پی میدان میں اترنا چاہتی ہے۔ 2015 کے اسمبلی انتخابات میں آر ایل ایس پی کے پروین کمار صرف 30000 ووٹوں سے مندریکا یادو سے ہار گئے تھے۔ اس لیے آر ایل ایس پی جہان آباد سیٹ پر اپنا دعویٰ پیش کر رہی ہے۔ لیکن بی جے پی کسی بھی قیمت پر ان سیٹوں کو چھوڑنا نہیں چاہتی۔
گجرات اور راجستھان میں بی جے پی کی ناقص کارکردگی کے بعد جب ایل جے پی، ایچ اے ایم اور آر ایل ایس پی کھل کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہیں تو جنتا دل یو کی خاموشی قابل غور ہے۔ حالانکہ جنتا دل یو این ڈی اے اتحاد میں سب سے زیادہ ممبران اسمبلی والی پارٹی ہے۔ 243 رکنی اسمبلی میں اس کے 71 ممبران اسمبلی ہیں اس کے باوجود وہ بی جے پی سے ’ مول بھاؤ ‘ نہیں کر پا رہی ہے۔ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو پارٹی لیڈروں کو ڈر ہے کہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی ایک بھی سیٹ جنتا دل یو کے لیے نہیں چھوڑے گی۔ آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں حالات اور بھی زیادہ پریشان کن ہو سکتے ہیں۔
اگر جنتا دل یو حقیقی معنوں میں سرفراز عالم کو انتخاب لڑانا چاہتی تھی تو یہ حیرت انگیز ہے کیونکہ دو سال پہلے ہی پارٹی نے انھیں اس الزام میں معطل کر دیا تھا کہ انھوں نے 17 جنوری 2016 کو کٹیہار سے پٹنہ جاتے وقت راجدھانی ایکسپریس میں سفر کر رہے ایک شادی شدہ جوڑے کے ساتھ غلط سلوک کیا تھا۔
وہ اور ان کے والد کچھ سال پہلے جنتا دل یو میں شامل ہوئے تھے۔ لیکن ان کے والد تسلیم الدین واپس آر جے ڈی میں چلے گئے اور سرفراز اسی پارٹی میں رہ گئے۔ 2015 میں بھی جب دونوں پارٹیوں نے مل کر انتخاب لڑا تھا جب بھی سرفراز عالم آر جے ڈی میں نہیں لوٹے۔ یہ بھی دلچسپ ہے کہ باپ بیٹے کی یہ جوڑی جب آر جے ڈی میں تھی تب بی جے پی اور میڈیا نے ان کی تنقید کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا تھا۔ لیکن جیسے ہی وہ جنتا دل یو میں آئے، بی جے پی کے کسی لیڈر نے ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی۔
2013 میں علیحدہ ہونے اور 2017 میں این ڈی اے کا دوبارہ حصہ بننے کی سرگرمیوں نے نتیش کمار کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ وہ کئی بار اپنی سیاسی زندگی میں کمزور ہوئے، لیکن کبھی سیاسی میدان سے باہر نہیں ہوئے۔ لیکن اس سے پہلے وہ کبھی اتنے غیر مسلح بھی نظر نہیں آئے۔ آر جے ڈی نے نتیش کمار کا پہلے سے ہی یہ کہتے ہوئے مذاق بنانا شروع کر دیا ہے کہ ان کی پارٹی میں جو بھی بچا ہے اسے جلد ہی بی جے پی نگل جائے گی اور نتیش کمار کو کسی ریاست کا گورنر بنا دے گی۔ یہ سچ ہے کہ اگر وہ اپنے سیاسی ساتھیوں سے بہتر انداز میں نمٹنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو ان کی سیاسی زندگی کے جلد سے جلد ختم ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔ لوک سبھا انتخابات میں ایک سال سے زیادہ نہیں بچا ہے۔ این ڈی اے کو دیکھ کر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ’ہاؤس فل‘ جیسی حالت ہے۔ چونکہ 2014 میں بہار کی 40 میں سے 31 سیٹیں این ڈی اے نے جیتی تھیں اس لیے بی جے پی جنتا دل یو کو زیادہ سیٹیں دینا پسند نہیں کرے گی۔ اگر این ڈی اے نے 2014 والا فارمولہ اختیار کیا تو جنتا دل یو کے پاس لڑنے کے لیے صرف 9 سیٹیں رہ جائیں گی۔
اس طرح دیکھا جائے تو نتیش کمار کا زوال حیران کرنے والا ہے۔ ایک وقت ایسا تھا جب وہ وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے تھے اور اب اپنی ریاست میں ہی ان کی گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز