ہندوستانی مسلمان ایک قوم کی حیثیت سے اپنی ایک مشترکہ مسلم شناخت نہیں رکھتے ہیں۔ وہ کئی فرقوں میں منقسم ہیں اور کوئی بھی فرقہ دوسرے کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس کے برخلاف باوجود طبقاتی تقسیم کے ملک کی دیگر اقلیتوں جیسے سکھوں اور پارسیوں میں برادری کا اتحاد واضح نظر آتا ہے۔ موجودہ حالات میں ہمیں دیگر اقلیتوں سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح وہ بحیثیت قوم یا برادری متحد ہیں اور کس طرح مسلمان آپسی اتحاد قائم کر کے انفرادیت کے بجائے اجتماعیت کے ذریعے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہر مسلمان کو برادری کی ترقی اور ہماری زندگیوں کو بہتر بنانے کے لئے مالیاتی و مادی دونوں میں تعاون کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
Published: 14 Feb 2021, 8:11 PM IST
یہ سب کچھ کہنے کے لئے بہت آسان ہے، لیکن عملی طور پر کرنا بہت مشکل ہے۔ سوال پھر بھی برقرار ہے کہ کون ہے جو اس کو کر دکھائے گا اور کب ؟ اس سوال کا جواب ہمارے مذہبی قائدین کے پاس ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ہنوز ہمارے علماء کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے اور ان کے بیانات کے مطابق کام کرتا ہے لیکن اکثر جو بیانات دیئے جاتے ہیں وہ وقت کے اعتبار سے موزوں نہیں ہوتے اور نہ ہی مسلمانوں کی ترقی و ترویج میں کسی طرح سے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہمارے علماء اور مشائخین کو قرآن و حدیث کی تعلیمات کو موجودہ مسائل کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تب ہی موجودہ نسل ان تعلیمات کی اہمیت کو سمجھے گی۔ اس مقصد کے لئے ہر جمعہ کے خطبہ کو ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
Published: 14 Feb 2021, 8:11 PM IST
مسلم علماء کو سب سے پہلے جدید دور سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کو درپیش اہم مسائل کا تنقیدی اور سائنسی انداز میں جائزہ لینے یا اجتہاد کے ذریعہ اس کی شروعات کی جاسکتی ہے۔ قدیم روایتوں اور بیانات پر تکیہ کرنے کے بجائے بہتر ہوگا کہ ہر ایک مسئلہ کا موجودہ حالات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے اور مقدس قرآن مجید و حدیث کی تعلیمات کے مطابق ان کا حل پیش کیا جائے۔ مقدس قرآن مجید صرف ایک کتاب نہیں ہے بلکہ اس میں زندگی کے ہر شعبہ ہائے حیات کے مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے۔ ضرورت صرف اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ہے۔
Published: 14 Feb 2021, 8:11 PM IST
ہمارے پاس نئے تعلیمی ادارہ جات قائم کرنے کے لئے سرمایہ کا فقدان بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جبکہ اس کو حل کرنا بہت آسان ہے۔ اگر ہندوستانی مسلمان اپنے بینک کھاتوں سے حاصل ہونے والی سود کی رقم اور زکوٰۃ کو ایک مرکزی تنظیم کے پاس جمع کرنا شروع کر دیں، جس کی قیادت ملک کے مایہ ناز ملی اور سماجی اکابرین کے ہاتھوں میں ہو۔ وہ ان دونوں مدوں کو مختلف نظام کے تحت تعلیم، بیواؤں، یتیموں، قوم کے اسپتال اور دیگر سہولیات مہیا کرانے کے لیے صرف کرنے کی مجاز ہو تو اس منصوبے کے ذریعے قوم کی تقدیر اور تصویر دونوں ہی بدل سکتی ہیں۔ اس حکمتِ عملی کے ذریعے آئندہ پانچ برسوں میں قوم کی صورت بالکل ہی بدل سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم ملک کے دیگر عقائد رکھنے والوں کے سامنے برادری کی ایک نئی اور جدید امیج پیش کرنے میں بھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔
Published: 14 Feb 2021, 8:11 PM IST
جب ملک میں یا دنیا کے کسی بھی علاقہ میں اسلاموفوبیا کی لہر اٹھتی ہے تو ہم خاموش ہوجاتے ہیں لیکن ہم کس طرح اس مسئلہ سے نمٹیں گے؟ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں کئی جنگیں سوشل میڈیا کے ذریعہ لڑی اور جیتی گئی ہیں۔ اس کی تازہ مثال سوشل میڈیا پر اسلاموفوبیا کے بیانات اور مسلم ممالک کی جانب سے اس کا جواب ہیں۔ مسلم ممالک کے غیرمعمولی ردعمل کی وجہ سے کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمس نے اس طرح کے پیامات کو شیئر کرنے سے روکنے کے لئے رہنما خطوط جاری کیے ہیں۔ اس کے علاوہ ان بیانات کو فوری ہٹانے کے علاوہ مختلف سوشل میڈیا ویب سائٹس پر اسلاموفوبیا مواد پوسٹ کرنے والوں کو معافی مانگنے پر مجبور بھی کیا گیا ہے۔
Published: 14 Feb 2021, 8:11 PM IST
سب سے پہلے بہتر ہوگا کہ مسلمان خود کو جانبدارانہ اور فرضی خبروں کا جواب دینے کے لئے تیار کریں۔ اس کے لیے ایک جامع جواب دینے والا میکانزم تیار کیا جانا چاہیے جو مسلم قوم کی بہتر طور پر نمائندگی کرسکے اور اس نظم کو قائم کرنے کے لیے زیادہ رقم بھی درکار نہیں ہوگی۔
Published: 14 Feb 2021, 8:11 PM IST
اس سلسلہ میں پہلا قدم ایک نگراں ٹیم (Monitoring Team)کی تشکیل ہوگی، جو تمام ہندوستانی اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر مسلم مخالف خبروں پر نظر رکھے۔ یہ ٹیم حقائق کا پتہ چلانے والی ٹیم (Fact Checking Team) کی مدد کرے، جو تحقیق اور پیام رسانی کی بہتر صلاحیت رکھتی ہو تاکہ مسلمانوں کے تعلق سے کسی بھی قسم کے جھوٹے پروپیگنڈہ کا مناسب اور پیشہ ورانہ طریقہ سے جواب دیا جاسکے۔ میڈیا نگراں کاروں کی مرکزی ٹیم کو دہلی میں مقیم ہونا چاہیے جو مختلف ریاستوں کے نگراں کاروں سے رابطہ میں رہیں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم جیسے ٹوئٹر، فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس اپ پر ہر مسئلہ، الزام یا غلط نمائندگی پر مدلل جوابات دینے کے لئے حقائق کی بنیاد پر تیز رفتاری کے ساتھ کام کرنے کے اہل ہوں۔
Published: 14 Feb 2021, 8:11 PM IST
اس کے بعد قوم کے ترجمانوں کا ایک گروپ منتخب کیا جائے اور انہیں ان ریاستوں کی زبانوں میں تربیت دی جائے جہاں وہ رہتے ہیں تاکہ وہ ریاستی ذرائع ابلاغ میں زیادہ با اثر ہوسکیں۔ انہیں لسانی طور پر بحث کی صلاحیت میں ماہر بناتے ہوئے کسی بھی مسئلہ یا موضوع پر بحث میں حصہ لینے اور اپنے مدمقابل سے مدلل بات چیت کرنے کے قابل بنایا جائے۔ ہر ریاست میں کم سے کم 5 افراد پر مشتمل ترجمانوں کی ایک ٹیم ہونی چاہیے جو مسلمانوں کی میڈیا میں رہنمائی کرسکے۔
Published: 14 Feb 2021, 8:11 PM IST
مختلف ذرائع ابلاغ میں برادری کی نمائندگی کے لئے معلومات رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ایک پینل تشکیل دینا چاہیے۔ اس پینل کی جانب سے جو بھی اظہار خیال کیا جائے، اس کی تصدیق علماء اور سماجی قائدین کی جانب سے پہلے سے ہونی چاہیے۔ یہ سب کچھ حاصل ہوسکتا ہے لیکن سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ یہ کام متحدہ اور اجتماعی طور پر کیا جائے۔ مسلمانوں کے مختلف طبقات اور فرقوں کی نمائندگی کرنے والے مختلف قائدین جب تک متحد نہیں ہوں گے تب تک یہ ممکن نہیں ہے۔ مختلف مکاتب فکر رکھنے والی تنظیموں، اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں ماہرین تعلیم، محققین، نظریہ سازوں، تاجروں، صنعت کاروں، کارکنوں اور زمینی سطح پر کام کرنے والے سرگرم لوگوں کا ایک پینل بنانا چاہیے، جنہیں برادری کے حقیقی چہرے کے طور پر پیش کیا جاسکے۔
Published: 14 Feb 2021, 8:11 PM IST
علاوہ ازیں بہتر ہوگا کہ مسلم برادری موجودہ حالات میں الجھنے کے بجائے اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو تلاش کرے جس نے اسے اب تک کمزور رکھا ہے۔ مسلمانوں کو خود کو ملک کے اصل دھارے سے جوڑنے کے لئے تیار کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ اس کے لئے ایک مستحکم منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ 25 سال بعد جب ہم ملک کی آزادی کی 100 ویں سالگرہ منا رہے ہوں تو ہم فخر کے ساتھ یہ کہہ سکیں کہ ہم وہ قوم ہیں جس نے اپنے ماننے والوں اور ملک کی خواہشات کی تکمیل کی ہے۔ ہمیں ایک صاف اور واضح منصوبے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان پروگراموں کو تیار کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لئے پختہ ارادہ کی ضرورت ہے جو برادری کو اس دلدل سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرسکیں۔ جب تک مسلمان اجتماعی طور پر اپنے آپ کو بدلنے کا فیصلہ نہیں کرتے اور اصلاح کی کوشش نہیں کرتے تب تک کوئی بھی اس برادری کو ان حالات سے نکالنے میں مدد گار نہیں ہوسکتا ہے۔
Published: 14 Feb 2021, 8:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 14 Feb 2021, 8:11 PM IST