چین سے مبینہ طور پر فنڈنگ لینے کے الزام میں 3 اکتوبر کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے آن لائن پورٹل ’نیوز کلک‘ سے جڑے تقریباً 30 احاطوں پر چھاپہ ماری کی ہے۔ ساتھ ہی پولیس نے نیوز کلک سے منسلک صحافیوں کے گھروں میں بھی تلاشی لی۔ اتنا ہی نہیں، سی پی آئی (ایم) جنرل سکریٹری سیتارام یچوری کے گھر بھی اسی معاملے میں دہلی پولیس کا چھاپہ پڑا ہے۔
Published: undefined
سیتارام یچوری نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ پولیس ان کے گھر آئی تھی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ دہلی پولیس کی جو چھاپہ ماری ہوئی ہے، اس سے سی پی آئی (ایم) کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی ان کے گھر پر ہوئی چھاپہ ماری پارٹی سے الگ ہی معاملے میں ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’دہلی پولیس ہمارے گھر پہنچی ہے، کیونکہ ہماری پارٹی کے ایک ساتھی ہمارے ساتھ رہتے ہیں جن کا بیٹا نیوز کلک میں کام کرتا ہے۔ یہ چھاپہ ماری کیوں ہو رہی ہے، اس کی وجہ کیا ہے، اس کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں دی گئی ہے۔‘‘
Published: undefined
پولیس نے نیوز کلک کیس کو لے کر ہو رہی کارروائی پر بھی اپنا رد عمل ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’پولیس بتا ہی نہیں رہی کہ یہ سب کیوں کر رہے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ پولیس وضاحت دے۔ یہ میڈیا اور اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ ہے۔ انہی وجوہات سے دنیا کے پریس انڈیکس میں (ہندوستان کی) گراوٹ دیکھنے کو مل رہی ہے۔‘‘
Published: undefined
واضح رہے کہ نیوز کلک سے جڑے صحافیوں اور رائٹرس کے گھروں پر کی گئی چھاپہ ماری پر پریس کلب آف انڈیا نے بھی فکر کا اظہار کیا ہے۔ اس نے پورے معاملے پر نظر رکھنے اور ایک تفصیلی بیان جلد جاری کیے جانے کی بات بھی کہی ہے۔ اس درمیان خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے ذرائع کے حوالہ سے بیان دیا ہے کہ نیوز کلک سے جڑے مختلف احاطوں پر چل رہی دہلی پولیس کی چھاپہ ماری 17 اگست کو یو اے پی اے اور آئی پی سی کی دیگر دفعات کے تحت درج معاملے پر مبنی ہے۔ یہ کیس یو اے پی اے، آئی پی سی کی دفعہ 153 اے (دو گروپوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، آئی پی سی کی دفعہ 120بی (مجرمانہ سازش) کے تحت کیس درج کیا گیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined