نئی دہلی: دہلی والوں کے لئے جلد ہی شادی سے متعلق نئے قاعدے اورقانون آ سکتے ہیں۔ شادی کے لئے دہلی کے کسی فارم ہاوس، موٹل یا ہوٹل میں شادی کی تقریب کے لئے آپ کتنے مہمانوں کو بلا سکتے ہیں اس کا فیصلہ جگہ کے فلور ایریا اور اس کی پارکنگ صلاحیت کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ فلورایریا کو 1.5 اسکوائر میٹر سے تقسیم کیا جائے گا اور جگہ پر کھڑی ہونے والی کاروں کی تعداد کو4 سے ضرب دیاجائے گا۔ جو بھی اعداد و شمارکم رہے گا، اتنی ہی زیادہ تعداد میں مہمانوں کو شادی میں بلایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی شادی کی جگہ کا ایریا 600 اسکوائر میٹر (600/1.5=400) ہے تو وہاں 400 لوگوں کی اجازت ملے گی۔ وہیں اگر پارکنگ کی صلاحیت 100 کاروں (100x4=800) کی ہے تو اس شادی کی جگہ میں 800 افراد کا انتظام ہو سکتا ہے۔
دہلی حکومت کی طرف سے مہمانوں کی تعداد کا تعین کرنے اور کھانے اور پانی کی بربادی کو روکنے کے لئے ایک نئی مسودہ پالیسی میں ان قوانین کو متعارف کرایا گیا ہے۔ جگہ کے باہر شادی کی رسومات، بینڈ، بارات اورگھوڑا گاڑی کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ زیادہ یا بچا ہوا کھانا غریبوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ شادی کی جگہ کے باہر سڑکوں پر گاڑی کھڑی کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔
بتا دیں کہ گزشتہ کئی سالوں سے شادی تقریبات اور سڑک کنارے کار کھڑی کرنے کے سبب چھتر پور، مہیپال پور، بجواسن، پنجابی باغ اور روہنی میں شدید جام لگتا رہا ہے۔ شادی تقریبات اور دیگر سماجی پروگراموں میں مہمانوں کی تعداد کو محدود کرنے والی اس مسودہ پالیسی کوحکومت نے اپنی ویب سائٹ پرشائع کیا ہے۔
18 مارچ سے پہلے دہلی کے لوگوں سے اس کے بارے میں رائے دینے کے لئے کہا گیا ہے۔ اس پالیسی نوٹیفکیشن کے ذریعے حکومت ان گیسٹ ہاوس اوربینکویٹ ہال کو بند کرنا چاہتی ہے جو سماجی پروگراموں کے لئے ضروری ضوابط اور شرائط کو پورا نہیں کرتے۔
مسودہ پالیسی کے مطابق شادی کے منتظمین کو 7 دن پہلے ہی مقامی شہری بلدیہ سے منظوری لینی ہوگی۔ یہ اجازت اس وقت ملے گی جب منتظمین آنے والے مہمانوں کی تعداد اور تمام قواعد کے پورا ہونے کی معلومات دیں گے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ یہ پلان سپریم کورٹ کے اس بیان کے بعد آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ جس شہر میں پانی کی کمی اور مبینہ طور پر بھوک سے موت ہونے جیسے مسائل ہوں، وہاں شادی تقریبات اور دوسرے پروگراموں میں بہت زیادہ کھانے کی بربادی اور پانی کا زیادہ استعمال ’ناقابل قبول‘ ہے۔ شادیوں کی وجہ سے راجدھانی میں لگنے والے جام سے سب سے زیادہ متاثر رہنے والے علاقوں میں مہرولی، گڑگاؤں روڈ، جی ٹی کرنال روڈ، پرانا روہتک روڈ اور نجف گڑھ روڈ شامل ہیں۔
Published: undefined
دہلی کے باشندوں کے لئے راحت کی بات یہ ہے کہ مسودہ پالیسی میں سماجی تقریبات کے لئے مہمانوں کی کوئی یقینی تعداد مقررنہیں کی گئی ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں چیف سکریٹری وجے کمار دیو نے کورٹ کو معلومات دی تھی کہ حکومت ایک پالیسی بنائے گی تاکہ مہمانوں کی تعداد کو یقینی کیا جا سکے اور کھانے کی بربادی اور ٹریفک جام پر لگام لگائی جا سکے۔ اس مسودہ پالیسی کو چیف سکریٹری کے ذریعہ تشکیل دی گئی ایک کمیٹی نے تیارکیا ہے۔ ایک افسر نے بتایا کہ اس پالیسی کوماحولیاتی آلودگی روک تھام اور کنٹرول اتھارٹی کے خدشات کو ذہن میں رکھ کر تیار کیا گیا ہے۔ پالیسی کا سپریم کورٹ کے ذریعہ مقررکی گئی مانیٹرنگ کمیٹی کے ذریعہ اشتراک کیا گیا اور اس پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پالیسی میں اس بات پردھیان دیا گیا ہے کہ جن مقامات پرسماجی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے وہاں لوگوں کو پریشانی نہ ہو اور اس جگہ پر کھانے پینے کی بربادی بھی نہ ہو۔ آگ سے حفاظت کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔ شہرکی مقامی بلدیہ کے اندر آنے والے تمام علاقوں میں اس پالیسی کونافذ کیا جائے گا۔
افسر نے کہا کہ شادی اور دیگر پروگراموں کے منتظمین کو زیادہ یا بچے ہوئے کھانے کو غریبوں میں تقسیم کرنے کے لئے کچھ این جی اوز کے ساتھ بھی رجسٹریشن کرانا چاہیے۔ حکومت نے ان قوانین کے خلاف ورزی پر بھاری جرمانہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پروگراموں کے لئے ان سرکاری مقامات یا ہال مالکان کو ایک عام ویب پورٹل پر خود کو رجسٹر کرنا ہوگی تاکہ وہاں سے انہیں بک کیا جاسکے۔ بکنگ کرنے والے لوگوں کے لئے یہ مقامات بکنگ پورٹل پر ہی دستیاب ہوں گے۔ پورٹل پر کیٹررز (حلوائی) کو بھی خود کو رجسٹر کرانا ہوگا۔ پالیسی پرعمل ہو رہا ہے یا نہیں، اس کے لئے افسران اچانک دورہ کریں گے۔ خلاف ورزی ہونے پر جگہ کے مالک کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ پالیسی میں کہا گیا ہے کہ ایسے مقامات جو سرکاری نہیں ہیں اورجہاں پروگراموں کا انعقاد کیا جائے گا، ان پر 15 لاکھ روپئے کاجرمانہ کیا جائے گا۔ اس طرح کے مقامات کو فوری طور پر سیل کیا جائے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined