نئی دہلی: کانگریس نے سوشل میڈیا کے لیے نئے ضابطوں کو مودی حکومت کی تاناشاہی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب تک اس پلیٹ فارم کا استعمال اظہار خیال کی آزادی کے طور پر ہوتا آیا ہے لیکن نئے ضابطے نافذ کرکے حکومت اس پر قدغن لگا رہی ہے، کانگریس کے ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی نے بدھ کے روز پریس کانفرنس میں کہا کہ اظہار خیال کی آزادی پر مودی حکومت جن نئے ضابطوں کو نافذ کر رہی ہے، وہ بے درد، بے رحم، بے ایمانی اور تاناشاہی کی مثال ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اظہار خیال کی آزادی پر شمالی کوریا کا تاناشاہ بھی اتنی بے رحمی سے ضابطے نافذ نہیں کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس بے رحمی سے مودی حکومت یہ ضابطے لا رہی ہے، وہ شمالی کوریا کے تاناشاہ کے لیے بھی باعث تحریک ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
ترجمان نے کہا کہ سوشل میڈیا پر قدغن کے جو ضابطے حکومت آج یا کل سے نافذ کرنے جا رہی ہے، وہ 25 فروری کو شائع ہوئے تھے اور اب تین ماہ پورے ہونے کے بعد انھیں نافذ کیا جانا ہے۔ ان ضابطوں کو ڈیجیٹل میڈیا کے لیے 2020-21 کا ضابطہ کہا جاتا ہے۔ ان ضابطوں میں جو انتظام کیا گیا ہے، وہی شمالی کوریا کے حکمراں کا سوشل میڈیا اور پریس کے تئیں ہوتا ہے۔
Published: undefined
سنگھوی نے کہا کہ اس نئے ضابطے کے تحت حکومت کی کوشش آئینی حقوق اور آئینی اداروں کا گلا گھونٹنے اور انھیں اپنے اشاروں پر چلنے کے لیے مجبور کرنا ہے۔ کوئی حکومت کے خلاف آواز نہ اٹھائے یا اس کی کوئی مخالفت نہ ہو، اسی مقصد سے یہ قانون بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ضابطے میں سب سے خراب یہ ہے کہ اس کے ذریعے ایکٹ پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ ماہرین قانون اسے سنگین صورتحال مانتے ہیں کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوا ہے لیکن یہاں حکومت نے تاناشاہی رویہ اختیار کرکے من مانی کی ہے۔
Published: undefined
ترجمان نے کہا کہ بولنے کی آزادی انسانی ثقافت کی آکسیجن ہے اور یہ صورتحال جمہوریت کے شعبے میں بھی آکسیجن کی کمی پیدا کرتی ہے۔ حکومت نے آج بہت ہی سنگین حالات پیدا کر دیئے ہیں۔ یہ مسئلہ ہماری تہذیب میں تبادلہ خیال سے منسلک ہے اور اس پر سنجیدگی سے سوچا جانا چاہیے۔
Published: undefined
سنگھوی نے کہا کہ اس نئے ضابطے کے تحت حکومت کی کوشش آئینی حقوق اور آئینی اداروں کا گلا گھونٹنے اور انھیں اپنے اشاروں پر چلنے کے لیے مجبور کرنا ہے۔ کوئی حکومت کے خلاف آواز نہ اٹھائے یا اس کی کوئی مخالفت نہ ہو، اسی مقصد سے یہ قانون بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ضابطے میں سب سے خراب یہ ہے کہ اس کے ذریعے ایکٹ پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ ماہرین قانون اسے سنگین صورتحال مانتے ہیں کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوا ہے لیکن یہاں حکومت نے تاناشاہی رویہ اختیار کرکے من مانی کی ہے۔
Published: undefined
ترجمان نے کہا کہ بولنے کی آزادی انسانی ثقافت کی آکسیجن ہے اور یہ صورتحال جمہوریت کے شعبے میں بھی آکسیجن کی کمی پیدا کرتی ہے۔ حکومت نے آج بہت ہی سنگین حالات پیدا کر دیئے ہیں۔ یہ مسئلہ ہماری تہذیب میں تبادلہ خیال سے منسلک ہے اور اس پر سنجیدگی سے سوچا جانا چاہیے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined