قومی خبریں

ترن تیج پال،گوری لنکیش اور اب پرنئے رائے کا ستارہ گردش میں

ترن تیج پال، گوری لنکیش اور اب پرنئے رائے کا ستارہ گردش میں

پرنئے رائے - Getty Images
پرنئے رائے - Getty Images 

انگریزی ٹی وی صحافت کا چمکتا ستارہ پر نئے رائے جلدہی غروب ہونے کو ہے ۔ پر نئے رائے نہ صرف انگریزی ٹی وی صحافت کا ایک سنگ میل ہیں بلکہ وہ اپنی اہلیہ رادھیکا رائے کے ساتھ مشہور ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی کے مالک بھی تھے۔لیکن خبروں کے مطابق انگریزی ٹی وی کا واحد لبرل چینل جلد ہی بکنے والا ہے۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ اس کو خریدنے والوں میں جو نام سر فہرست ہے وہ ہے اجے سنگھ کا ہےجو جیٹ ایر لائنس کے مالک بھی ہیں اور بی جے پی کے اہم رکن بھی ہیں۔

اگر یہ ڈیل پختہ ہو گئی تو این ڈی ٹی وی پر ہندو توا نظریہ کی گہری چھاپ نظر آئے گی اور اس طرح انگریزی ٹی وی صحافت سے لبرل اورسیکو لر لب و لہجے کا بالکل خاتمہ ہو جائے گا۔

پرنئے رائے سے اجے سنگھ کے ہاتھوں میں این ڈی ٹی وی کا تبادلہ وزیر اعظم نریند ر مودی کی صحافت کے میدان میں ایک اور کامیابی ہو گی۔ اجے سنگھ بی جے پی کنبہ کے وہ فرد ہیں جنہوں نے سن 2014 میں لوک سبھا الیکشن کے دوران ’ اب کی بار مودی سرکار‘ کا نعرہ دیا تھا اور وہ مودی کی آئی ٹی ٹیم کے ایک اہم فرد بھی تھے۔

اجے سنگھ ، واجپئی سرکار کے دوران پر مود مہاجن کے نزدیکیوں میں گر دانے جاتے تھے۔ وہ اس وقت پر مود مہاجن کی آئی ٹی ٹیم کے سر براہوں میں بھی تھے۔لیکن پر مود مہاجن کی موت کے بعد اجے سنگھ کا ستارہ گردش میں آگیا ۔ اسی زمانے میں انہوں نے اسپائس جیٹ کمپنی خرید کر تجارت کی دنیا میں اپنے قدم جما لئے تھے ۔ مرکزی سیاست میں مودی کے عروج کے بعد وہ پوری طرح مودی کیمپ کے رکن ہو گئے اور جلد ہی وہ مودی کی آئی ٹی ٹیم اور ان کے الیکشن کمپین کے اہم افراد میں گنے جانے لگے۔

حالانکہ این ڈی ٹی وی کی خریداری کا معاملہ ابھی پوری طرح پختہ نہیں ہے لیکن خبروں کے مطابق سودا طے ہی سمجھا جا رہا ہے۔اخبار انڈین ایکسپریس کےمطابق اجے سنگھ کے دفتر نے اس ڈیل کا اقرار کرلیا ہے۔

در اصل سن 1988میں پرنئے رائے اور ان کی اہلیہ رادھیکا رائے نے نیو دہلی کمپنی نام کی ایک ٹی وی کمپنی قائم کی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ملک میں دور درشن کے علاوہ کوئی دوسرا انگریزی یا ہندی پرائیویٹ چینل نہیں تھا۔صحافت کے اس سرکاری دور میں پرنئے رائے نے دوردرشن پر ’’دی ورلڈ دِس ویک ‘‘ نام کا پروگرام شروع کیا۔ جس کو اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی پشت پناہی حاصل تھی۔

پروگرام ’’دی ورلڈ دس ویک ‘‘ اور اس کے اینکر پرنئے رائے دونوں ہی جلد انگریزی صحافت کے افق پر چھا گئے ۔ سن 1990 کی دہائی میں پرنئے رائے نے این ڈی ٹی وی کے نام سے ہی ایک پرائیویٹ چینل شروع کیا جو انگریزی کا پہلا x724نیوز چینل بنا۔ پرنئے رائے نے اس چینل کے ذریعہ اب تک کے سب سے مشہور انگریزی اینکر ہندوستان کو عطا کئے جن میں راج دیپ سردیسائی ، برکھا دت، ارنب گوسوامی ، شیکھر گپتا اور رویش کمار سر فہرست ہیں۔

این ڈی ٹی وی پچھلے 10 برسوں میں طرح طرح کے معاملات میں الجھا بھی رہا مثلاً راڈیا ٹیپ، کامن ویلتھ گیمز، ٹیکس فراڈ کیس ۔ لیکن جب سے نریندر مودی مرکز میں بر سر اقتدار آئے تب سے این ڈی ٹی وی کا ستارہ گردش میں رہا۔ مئی 2017 میں چینل پر سی بی آئی ریڈ ہوئی جس کی ساری دنیا میں مذمت ہوئی ۔ اس کے بعد این ڈی ٹی وی کے تمام بینک اکاؤنٹ ضبط کر لئے گئے ۔ اس طرح این ڈی ٹی وی کی معاشی حالت غیر ہو گئی اور کمپنی بند ہونے کی کگار تک آ گئی۔ جس کے بعد یہ خبریں آئیں کہ اجے سنگھ جلد ہی کمپنی کو خریدنے والے ہیں۔

دہلی کے صحافی حلقوں میں یہ خبر عام ہے کہ مودی پر نئے رائے سے ذاتی طور پر ناراض ہیں کیوں کہ سن 2002 میں گجرات فسادات کے دوران پرنئے رائے کی قیادت میں این ڈی ٹی وی نے نہ صرف گجرات فساد ات کو ’گرؤنڈ زیرو‘ سے ’لائیو ٹیلی کاسٹ‘کیا تھا بلکہ اپنے مباحثوں کے دوران اکثر گجرات فسادات کے لئے مودی کو ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا تھا۔

اس الزام کے کوئی پختہ ثبوت نہیں ہیں ۔ لیکن گجرات فسادات کے دوران مودی حکومت کی نا اہلی کا شور مچانے والے تین ۔چار اہم نام صحافت کی دنیا سے گم ہو چکے ہیں۔ ان میں سے تہلکہ میگزین کے بانی اور ایڈیٹر ترون تیج پال سر فہرست ہیں ۔ انڈین ایکسپریس کے سابق ایڈیٹر شیکھر گپتا اور این ڈی ٹی وی کی بر کھا دت کا نام بھی اس فہرست میں آتا ہے جو صحافت کی دنیا سے گمنام ہو چکے ہیں۔ یہ تمام صحافی گجرات فسادات کے دوران مودی کے نقاد تھے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اس ماہ کے اند ر گوری لنکیش اور پھر تریپورہ صحافی شانتو بھومک کا قتل اور اب این ڈی ٹی وی کا بی جے پی حامی اجے سنگھ کے ہاتھوں میں لگنے جیسی خبریں ہندوستان کی آزاد صحافت کے لئے خوش آئند نہیں ہیں۔

Published: 23 Sep 2017, 2:18 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 23 Sep 2017, 2:18 PM IST